*کاش ایسی پری ہوتی ، ایسا پیار ہوتا!*
میں صُبح سویرے کسی گاؤں میں،
پیڑوں کے ٹھنڈی چھاؤں میں ،
ایک پری کو ہنستے ہوئے دیکھوں!
کھیتی میں کام کرتے ہوئے دیکھوں!
پُھولوں کی ڈالیوں جیسے ہو بال،
اور سرخ اناروں جیسے ہو گال !
ہونٹ نہ ہو گلاب کی پتیاں ہو!
شراب کے پیالوں جیسی اَنکھیاں ہو !
دودھ کے رنگ کی لمبی گردن ہو!
بُھنویں خنجر، ریشم سا بدن ہو !
باتیں ہو اُس کی میٹھے گیت !
ہر حرکت ہو اُس کی من پریت !
نرم دل ہو، فلسفیانہ ہو دماغ !
نیک سیرت ہو، دامن ہو بے داغ!
شرم و حیا ہی اُس کا گہنا ہو!
اُس کے ہاتھوں کا میٹھا کھانا ہو!
میں پہلے اُسے دوست بنا لیتا!
دھیرے دھیرے ہمیں پیار ہو جاتا!
وہ میرے آسمان کا روشن چاند ہوتی !
روٹھتی نہ کبھی وہ ، نہ غصّہ کرتی !
وہ کسی کی باتوں میں کبھی نہ آتی !
وہ میرے لیے سارے جہاں سے جگھڑتی !
میری ہر بات وہ سچ مان لیتی !
میرے ہر اشارے کو وہ پہچان لیتی!
میرے سینے میں اُس کا دل دھڑکتا!
میں روح اُس کی, وہ میرا بدن ہوتا !
میرا گھر جنّت ، وہ میری حور ہوتی!
میں ہمت اُس کی, وہ میرا غرُور ہوتی!
وہ تقدیر میری ، میں اُس کا مقدر ہوتا!
وہ مچھلی میری ، میں اُس کا سمندر ہوتا!
کاش ایسی پری ہوتی ، ایسا پیار ہوتا!
میری زندگی میں ہمیشہ موسمِ بہار ہوتا!
(شاعر شریف الدین بٹ )
Aisa likho na kaash koe behri aur gungi hoti, ����
ReplyDeleteAnyways nice poem ��
Nice knitting of words and thought brother.. Keep it up
ReplyDelete