کیا #اسلام صرف بے وقوف لوگ مانتے ہیں؟
اگر آپ آج کسی پڑھے لکھے ذہین انسان کو پوچھیں گے کہ ایران اور ترکیہ کے درمیان کوئی تیسرا ملک ہے یا نہیں، میں 80 فیصد یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اُس شخص کو پتہ نہیں ہوگا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں (AD 571_ AD632 ٔٔ) فلسطین میں ایرانی مجوسیوں اور مغربی عیسائیوں کا دبدبہ تھا۔ یہودی لوگ وہاں بہت کم اور بہت کمزور تھے۔ اُن یہودیوں میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اپنا مندر ( جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے 1000 BC میں بنایا تھا، پھر بابل کے بادشاہ نبوکڈ نگر نے 586 BC میں گرایا تھا، پھر یہودیوں نے 515 BC میں پھر سے بنایا مگر رومی شہنشاہ ٹائٹس نے 70 AD میں پھر سے گرایا۔ یہودیوں کا وہ کعبہ آج تک گِرا ہوا ہے۔) پھر سے تعمیر کریں۔ آب آج ، اکیسویں صدی میں یہودی فلسطین میں بسنے والے مسلمانوں اور سچے عیسائیوں کا قتل عام کر رہے ہیں اور اُن کو وہاں سے پوری طرح نکالنا چاہتے ہیں۔ یہ وہ اِس لیے کر رہے ہیں تاکہ اپنے مندر/ ہائیکل یا اپنے کعبے کو تیسری دفعہ تعمیر کر سکیں گے۔ اس کام کے لیے اُن کو باقی چیزوں کے علاوہ ایک لال گائے کی بھی ضرورت ہے۔ اگر یہودی آج دنیا میں لگ بھگ ایک کروڑ ہے اور مسلمانوں کی تعداد لگ بھگ 200 کروڑ ہے، پھر بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی کے مطابق یہ یہودی اپنا مندر تیسری مرتبہ تعمیر کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ دنیا کی کوئی طاقت اِن کو نہیں روک سکتی ہے۔ اگر کوئی طاقت اِن کو روکنے میں کامیاب ہوئی تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی نعوذ باللہ جھوٹی ثابت ہوگی۔ یہ یہودی اپنا مندر تعمیر ضرور کریں گے۔ مسجد اقصی ضرور شہید کی جائے گی۔ دجّال ضرور آئے گا اور پھر دجّال کو مارنے کے لیے حضرت عیسی بھی ضرور آئیں گے۔ یہی پیشن گوئیوں سے ثابت ہے۔ یہی ایک پختہ مسلمان کا ایمان بھی ہے۔
مسلمانوں کا پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس نے کسی اِسکول، کالج یا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل نہیں کی ہے۔ نہ انہوں نے بظاہر کبھی فلسطین کا سفر کیا ہے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی میں بھیڑ بکریاں پالی تھیں اور چند سال تجارت کی تھی۔ اگر ایسا شخص پیشن گوئی کرتا ہے کہ سینکڑوں یا ہزاروں سال بعد فلسطین میں یہ کمزور یہودی (وقت کے طاقتور ترین سپر پاورس، ایرانی مجوسی اور رومی نہیں، بلکہ وقت کے کمزور ترین لوگ یہودی) بہت زیادہ طاقتور ہوں گے اور کانا دجّال کا ساتھ دیں گے اور مسلمانوں کی سخت ترین لڑائی اِن ہی یہودیوں کے ساتھ فلسطین میں لڑی جائے گی۔ حضرت عیسی علیہ السلام اور امام مہدی رحمتہ اللہ علیہ مسلمانوں کی طرف سے اور دجّال یہودیوں کی طرف سے لڑیں گے۔ "لد" کی جگہ جہاں آج اسرائیل کا ایک ایئرپورٹ ہے ،حضرت عیسی علیہ السلام دجّال کو قتل کریں گے۔ اگر یہ سب باتیں 1500 سال بعد پوری ہو رہی ہے، کیا پھر اِس سچی پیشن گوئی سے بڑا کوئی اور معجزہ ہو سکتا ہے؟ کیا ہمیں اِس شخص یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہنما اور لیڈر نہیں ماننا چاہیے؟ کیا ہم میں سے کوئی ذہین انسان اِس قابل ہے کہ وہ آج ہی سچی پیشن گوئی کرے گا کہ ہزار سال بعد کیا ہوگا اور کہاں ہوگا؟
اگر دولت نے آپ کی عقل اور سوچ کو اندھا نہیں کیا ہوگا تو آپ اِس شخص اور اِس کے دین اور اس کی پیشن گوئیوں پر مزید تحقیقات ضرور کریں گے۔ اُمید ہے کہ آپ غرور اور تکبر چھوڑ کر ایک پرسکون اور حقیقی خوشی والی زندگی مستقبل قریب میں پائیں گے۔
(نوٹ: میں نے اسلام کے علاوہ عیسائیت، یہودیت اور ہندوت کا بھی کافی حد تک مطالعہ کیا ہے لیکن میرے منطقی ذہن کو اگر کسی حد تک کسی مذہب یا دین نے متاثر کیا ہے تو وہ صرف اور صرف اسلام ہے۔ اسلام ایک انسان کو جوتے پہننے سے لے کر شادی کے دن سہرا پہننے تک، پانی پینے سے لے کر بیت الخلا میں بیٹھنے تک اور کِچن سے لے کر پارلیمنٹ تک مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا پیغام ہے جس میں بھیڑ بکریاں پالنے والے ان پڑھ انسان اور دنیا کی مشہور ترین یونیورسٹی میں پڑھانے والے پروفیسر دونوں کے لیے برابر کشش ہے۔ البتہ آپ لوگوں سے ایک درخواست ہے کہ آپ مسلمانوں کو مت دیکھو اور آپ اسلام سوشل میڈیا سے مت سیکھو۔ اگر آپ سچ میں اسلام سیکھنا چاہتے ہو تو قرآن اور احادیث پڑھو۔ آج کے زمانے میں اسلام کے سب سے بڑے دشمن مسلمان خود ہے۔ لہذا اسلام کتابوں سے ( قرآن اور احادیث) سے سیکھو۔ )
©️ Image courtesy; rightful owner
Comments
Post a Comment
Thank you for commenting. Your comment shows your mentality.