مسلمان قبروں میں چلے گئے اور اسلام کتابوں میں رہ
گیا!
( مصنف: ساحِلؔ)
جب ہم کسی مسلمان سے سوال پوچھتے ہیں کہ آپ اسلام پر مکمل طور پر عمل کیوں نہیں کرتے ہو تو اُس کی باتوں کا نچوڑ یہی ہوتا ہے کہ اگر "میں نے اسلام پر مکمل طور پر عمل کرنا شروع کیا تو میرا جینا اس جدید دور میں مشکل ہو جائے گا" ۔ ویسے بھی آج مسلمان دنیا کے جس کونے میں بھی رہتا ہے پریشان ہی ہے، کہیں مسلمان پِٹتا ہے اور کہیں مارا جاتا ہے، کہیں مظلوم ہے اور کہیں انصاف کے لیے زور زور سے رو رہا ہے۔ مسلمان نہ کہیں پر آج خوش ہے اور نہ آزاد ، اِس کی ایک ہی وجہ ہے کہ مسلمان اسلام سے دور ہو گیا اور موجودہ دور کے رنگ میں رنگتا گیا۔ موجودہ دور کا مسلمان یہی کہتا ہے کہ کسی طرح سے پیسہ ملنا چاہیے باقی سب تو میں سنبھال لوں گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمان دنیا میں فخر اور آزادی کے ساتھ جیتا تھا۔ اُس زمانے میں مسلمان غلام نہیں تھا، بلکہ مالک تھا۔ غیر مسلموں سے محبت کرتا تھا اور غیر مسلم بھی مسلمانوں کی دل سے عزّت کرتے تھے۔ آج کے مسلمان ایک دوسرے کے جانی دشمن بن چکے ہیں اور غیر مسلم بھی آج مسلمانوں کے دشمن بن چکے ہیں۔ آخر وجوہات کیا ہے؟
اول تو اِسلام کا 80 فیصد حصہ نہ آج سُنی مانتے ہیں اور نہ شیعہ۔ رہا باقی 20 فیصد اسلام، اِس میں سب کو اختلاف ہے یا کنفیوژن۔ اسلام کا پیغام تھا کہ ایک اللّٰہ کو مانو ، اُس کی عبادت کرو اور اس کے سامنے ہی اپنے سارے حاجات رکھ دو۔ نعوذ باللہ من غضب اللّٰہ، ہم نے اللّٰہ تعالی کو کرسی سے اُتار کر اپنے من پسند پیروں، فقیروں اور باقی لوگوں کو اُس کرسی پہ رکھ دیا۔ کسی کو پیدا کرنا اور کسی کو مارنا، کسی کا رزق زیادہ کرنا یا کم کرنا، کسی کو بیماری میں مبتلا کرنا یا بیماری سے شفا دینا، کسی کو جنّت میں ڈالنا یا جہنم میں ڈالنا، کسی کی مدد ہزاروں لاکھوں میل دور سے کرنا یا نہ کرنا، یہ سب کام اللّہ تعالی کے ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے یہ سارے کام اپنے اپنے پیروں، فقیروں، بابوں اور باقی لوگوں کے حوالے کر دیے ہیں۔ اب ایک سیدھے سادے مسلمان کو یہ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ بابوں اور اللّہ تعالی میں فرق کیا رہ گیا ہے؟ اب شیعہ لوگوں کے لیے اسلام حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کو بُرا بھلا کہنا ہے اور پورا سال ماتم کرنا ہے ۔ سنی لوگوں کے لیے اسلام سکڑتے سکڑتے رفع یدان کرنا یا نہ کرنا، نماز میں سلام پھیرنے کے بعد اونچی آواز میں ذِکر کرنا یا نہ کرنا، قبروں سے حاجات مانگنا یا نہ مانگنا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جنم دن منانا یا نہ منانا تک رہ گیا ہے۔ یہی ایک سبب ہے کہ مسجدِ اقصی کے گرد و نواح میں ہمارے بھائی بہن آج بےدردی کے ساتھ قتل کیے جا رہے ہیں اور ہم سب مسلمانوں کو ذرا بھر فرق نہیں پڑتا ہے۔ ہم اپنے روزمرّہ کے کام بغیرِ کسی پریشانی کے کیے جا رہے ہیں۔
اب اگر ہم ہی اپنے آپ کو جنّتی اور باقیوں کو دوزخی سمجھنے لگیں، تو پھر اللّہ پاک کا کام کیا رہ گیا ہے ؟ جنتی اور دوزخی طے کرنا تو اللّہ پاک کا کام ہے۔ آنے دو قیامت کو اور لگنے دو اللّہ تعالی کی عدالت کو،پھر سب کو پتہ چلے گا کون اصلی مسلمان تھا اور کون نقلی۔ آج دنیا میں ہم ایک دوسرے کو نصیحت کر سکتے ہیں لیکن جنّت اور جہنم کی سرٹیفیکیٹ نہیں دے سکتے ۔
ہمارا کام ہے سچ بولنا اور کتاب و سنت والا اسلام لوگوں کے سامنے رکھنا۔ ہمارا کام یہ بھی ہے کہ صرف ایسی باتیں کریں جن سے مسلمانوں کی حالت بہتر بن سکے اور دنیا میں امن اور شانتی پھیل سکے۔
اسلام ہزاروں احکامات کا نام ہے لیکن اب ہم اسلام سے پوچھتے بھی کہاں ہیں۔ جِسے جو اچھا لگتا ہے کرتا ہے۔ نہ کوئی مسلمان قرآن سے پوچھتا ہے اور نہ سنّت سے۔
مثلاً ، اسلام کا حکم ہے خلیفہ بنانا، ہم نے بادشاہ ، صدر اور پرائم منسٹر بنائے۔
اسلام کا حکم ہے سُود اور سُود پر لیا یا دیا ہوا پیسہ حرام ہے، آج کل ہم نے مسجدوں کے بھی بینک اکاؤنٹس کھول کر رکھے ہیں۔ گھر، گاڑی، موبائل فون یا تجارت اور نجی ضروریات کے باقی سامان وغیرہ کا لینا یا بیچنا بینکوں کے بغیر ناممکن ہو چکا ہے۔
اسلام کا حکم صاف صاف تھا کہ رِشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ ہم شوق سے رشوت دیتے بھی ہیں اور لیتے بھی ہیں، ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ ہم نے رِشوت کا نام بدل کر "چائے" رکھا ہے ۔ہم رشوت دے کر سرکاری نوکریاں حاصل کرتے ہیں اور پھر ہمیں شرم بھی نہیں آتی ۔ کون سا جواب دیں گے ہم جب وہ شخص کل قیامت کے دن ہمارا گریبان پکڑے گا، جس کی سرکاری نوکری ہم نے رشوت دے کر چھین لی ہو؟ 😭
زنا کرنے والوں کی سزا قرآن نے بتایا ہے کوڑے لگانا یا سنگسار کرنا ہے۔ کس کو کوڑے لگتے ہیں آج اور کون سنگسار ہوتا ہے ؟
چوری کرنے والوں کی سزا قرآن نے بتایا ہے کہ ہاتھ کاٹ دینا مگر ہم نے چوروں کو جیل میں رکھا یا تھوڑا سا جرمانہ کر کے پھر سے بازار میں چوری کرنے کے لیے چھوڑ دیا۔
بھیک مانگنا عیب مانا جاتا ہے اسلام میں مگر مسلمانوں نے بھیک مانگنے کو پیشہ بنایا ہے۔
شراب ،چرس اور باقی نشہ آور چیزیں اِسلام میں بالکل حرام ہیں۔ اِن چیزوں کا استعمال کرنے والا مسلمان جہنم میں جائے گا مگر مسلمانوں نے اِن چیزوں کا نام بدل کر اپنی روزانہ خوراک بنا رکھا ہے۔
عورتوں اور مردوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دور دور رہنے کا حکم دیا تھا لیکن ہم نے عورتوں اور مردوں کو اِسکولوں میں، یونیورسٹیوں میں، بازاروں میں، گاڑیوں میں، ہسپتالوں میں، فوج میں اور باقی دفتروں میں ایک دوسرے کے سامنے رکھا۔ اِس پہ باضابطہ مفتیوں اور مولویوں نے بڑے بڑے فتوے بھی دیے ہیں۔ لوگ اُونچی اُونچی آوازوں میں کہتے ہیں کہ مرد عورتوں کے برابر ہیں اور عورتیں مردوں کے برابر ہیں۔ اِن کو الگ الگ کرنے سے دنیا میں تباہی مچ سکتی ہے۔ ویسے بھی دنیا میں آج خوش اور ذہنی طور پر ٹھیک کون ہے؟ نکاحوں سے زیادہ طلاق ہو رہے ہیں اور تعلیم حاصل ہونے سے زیادہ بدکاری ہو رہی ہے۔
بچّہ پیدا ہو جائے یا کسی کی شادی ہو یا کوئی آدمی یا عورت مر جائے تو ہم سماج کے بنائیں ہوئے رسم و رواج پر عمل کرتے ہیں۔ اِن چیزوں کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے، نہ کسی کو علم ہے اور نہ کسی کو پرواہ۔
ہمارا لباس، ہمارا کھانا، ہماری ایجوکیشن، ہماری تجارت، ہمارا لین دین سارا غیر اِسلامی ہے، اب چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کو کافر یا دوزخی سمجھنا کون سی مصلحت ہے؟ کسی کے یہاں شادی ہو اور ہمیں دعوت پہ بلایا جائے تو ہم وہاں نہ شیعہ دیکھتے ہیں نہ سنی، نہ وہابی نہ سلفی نہ بریلوی نہ کچھ اور۔ ہم ایک ہی بس میں سفر کرتے ہیں، ہم ایک ہی تویرہ میں سفر کرتے ہیں، ہم ایک ہی دفتر میں کام کرتے ہیں ،ہم ایک ہی ہسپتال میں اپنا علاج کراتے ہیں، ہم ایک ہی کھلاڑی کو یا فلمی ایکٹر کو یا سیاستدان کو پسند کرتے ہیں، ہم سِینما بھی اکٹھے جاتے ہیں، پارکوں میں بھی اکٹھے جاتے ہیں، گانے بھی ہم ایک ہی گلو کار کے سنتے ہیں لیکن جب ہم مسجدوں میں پہنچ جاتے ہیں تو ایک دوسرے کے خلاف سنی، شیعہ، سلفی ، بریلوی وغیرہ ناموں پر جھگڑتے ہیں۔ یہ اسلام کون سی کتاب میں بیان کیا گیا ہے؟ کیا ہم نے مسجدیں صرف لڑنے جھگڑنے اور نفرت پھیلانے کے لیے بنائی ہیں؟ ہمارا اختلاف ہر جگہ ہونا چاہیے مگر مسجدوں میں نہیں۔ بدقسمتی سے ہمارا اختلاف صرف مسجدوں میں ہے باقی جگہوں پر نہیں۔ یہی وجہ ہے ہر مسلک کا ہر فرد پریشان ہے۔ عالی شان مکانوں، مہنگی گاڑیوں اور باقی مہنگی مہنگی چیزوں کے باوجود بھی ہر انسان پریشان ہے۔
جو اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے، وہ کتابوں میں رہ گیا۔ ہم نے اپنے اپنے علاقوں میں اپنا اپنا اسلام پیدا کیا۔ اپنا اپنا ممبر اور اپنا اپنا چندہ بک بچانے کے چکّر میں ہم نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے اسلام کا جنازہ نکالا ہے۔ یہی ایک بڑا سبب ہے کہ آج مسلمان ہر جگہ ذلیل و خوار ہے۔ خدا کے واسطے برداشت کرنا سیکھو۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین جو کتابوں میں رہ گیا ہے اِس کو آہستہ آہستہ، پیار اور محبّت کے ساتھ پھر سے عام کر دو۔ نفرت سے بھرا ہوا دماغ، کینہ اور بغض سے بھرا ہوا دل کسی جنّتی کا نہیں ہو سکتا ہے۔ اپنے اپنے مسلکوں کے مولویوں کو سنو اور اپنے اپنے مسلکوں کی کتابوں کو پڑھو۔ اس کے ساتھ ساتھ باقی مسلکوں کے مولویوں کو سنو اور باقی مسلکوں کی کتابوں کو بھی پڑھو۔ چھوٹے چھوٹے تالابوں میں رہ کر اپنی زندگی اور اپنا آخرت برباد مت کرو۔ اسلام کے سمندر میں کُود جاؤ اور باقی مسلکوں کی مچھلیاں بھی قریب سے دیکھو اور پرکھو۔
میں پھر سے عرض کر رہا ہوں کہ جو اِسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود تھا اور جس اِسلام پر اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم عمل کرتے تھے ، اُس اسلام کا دس یا بیس فیصد بھی آج ہمارے سماج میں موجود نہیں ہے۔ مغربی نظام یا جمہوری نظام نے اِسلام کو ہمارے سماج سے نکال کر پتہ نہیں کہاں پھینکا ہے۔ آج کا مسلمان سمجھتا ہے کہ اُس کو مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے اور وہ ماہِ رمضان میں روزہ رکھ سکتا ہے تو یہی سارا اسلام ہے۔ اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے۔ ہمارا عقیدہ اسلامی ہو۔ ہمارے عبادات اسلامی ہو۔ ہمارے رسومات اسلامی ہو۔ ہمارے سماجی، تجارتی اور سیاسی اصول اور قوانین اسلامی ہو۔ ہمارا ٹرانسپورٹ، ہمارے دفاتر، ہمارے اسکول اور یونیورسٹیاں، ہمارے ہسپتال اور ہمارے نکاح سب اسلامی ہو۔ ہمارا دل، ہماری نظر اور ہمارا مقصد اسلامی ہو۔ تب جا کے ہم مسلمان کہلائیں گے۔ صرف داڑھی ٹوپی رکھنے سے، حجاب رکھنے سے، فرصت میں نماز پڑھنے سے، گاہ بگاہ قرآن کی تلاوت کرنے سے ، وعظ گا گا کر پڑھنے والے مولویوں کو سننے سے اور تلفظ کے ساتھ 'السلام علیکم' کہنے سے کوئی مسلمان نہیں بن جاتا ہے۔ اسلام اور بھی ہزاروں چیزوں کا نام ہے۔
مصیبت تو یہ ہے کہ جس گناہ میں ہم سب مسلمان پھنس گئے ہیں اُس پر کوئی مسلمان بات نہیں کرتا ہے اور جس گناہ میں ایک مسلمان پھنس گیا ہے اور دوسرا ابھی پھنسا نہیں، اس گناہ کو ہم خوب اُچھالتے ہیں۔ میری بیٹی رات رات بھر فون پر اپنے بوائے فرینڈ سے بات کرتی ہوگی، وہ میرے لیے مسئلہ نہیں ہے۔ میرا بیٹا نشہ کر کے بستر پہ لیٹ گیا ہوگا، وہ میرے لیے مسئلہ نہیں ہے۔ میں نے سود پر گاڑی لی ہوگی، موبائل فون لیا ہوگا، گھر لیا ہوگا، وہ سب میرے لیے مسائل نہیں ہیں۔ میری تنخواہ بینک سے آتی ہوگی، وہ مسئلہ نہیں ہے۔ میں نے رشوت دے کر سرکاری نوکری حاصل کی ہوگی، وہ بھی میرے لیے مسئلہ نہیں ہے۔ میری بدکار بیوی مجھے انگلیوں کے اشاروں پر نچاتی ہوگی، وہ مسئلہ نہیں ہے۔ میں فلمیں دیکھتا ہوں یا گانے سنتا ہوں، وہ مسئلہ نہیں ہے۔ میرے علاقے میں یتیم بیٹیاں، بیوہ عورتیں اور باقی غریب لوگ گناہ کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں لیکن وہ بھی میرے لیے مسئلہ نہیں ہے۔ اگر تو میرے لیے کوئی مسئلہ ہے تو یہی ہے کہ مسجد میں جا کر چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ لڑنا اور جھگڑنا ہے۔ اپنے آپ کو مومن سمجھنا ہے اور باقیوں کو کافر اور جہنمی سمجھنا ہے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین پھر سے مکمل طور پر بحال کرے، ہمیں صبر دے اور ہمیں اچھا مسلمان بنا دے! امین!
ایک اچھا مسلمان اپنے لیے ، اپنے گھر کے لیے، اپنے سماج کے لیے اور اپنے ملک کے لیے ایک بہت بڑی رحمت ہوتی ہے۔ وہ نفرت کرنے والا نہیں ہوتا ہے اور نہ وہ دہشت گرد ہوتا ہے۔ مکمل مسلمان ہونے کا مطلب ہے مکمل طور پر اپنے آپ کو اللہ تعالی کے حوالے کرنا ہوتا ہے۔ ایسا مسلمان دنیا میں بھی خوش ہوتا ہے اور انشاءاللہ آخرت میں بھی خوش ہوگا۔
علامہ اقبال رحمت اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:
سبَق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
یہی مقصودِ فطرت ہے، یہی رمزِ مسلمانی
اُخُوّت کی جہاںگیری، محبّت کی فراوانی
بُتانِ رنگ و خُوں کو توڑ کر مِلّت میں گُم ہو جا
نہ تُورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی
آپ کے حساب سے آج دنیا میں وہ اسلام جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے لایا تھا کتنا فیصد زندہ ہے؟
Comments
Post a Comment
Thank you for commenting. Your comment shows your mentality.