©️Video credit; rightful owner 👇
باقی منافق کہاں گئے؟
اِذَا جَآءَکَ الۡمُنٰفِقُوۡنَ قَالُوۡا نَشۡہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوۡلُ اللّٰہِ ۘ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوۡلُہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَشۡہَدُ اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ لَکٰذِبُوۡنَ ۚ﴾
[Surat No 63 : سورة المنافقون - Ayat No 1]
جنگ اُحد میں ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہزار صحابہ کو لے کر نکلے تھے، لیکن عبداللہ بن اُبی 300 صحابہ کو لے کر جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی بھاگ گیا۔ کتابوں میں صرف عبداللہ بن اُبی کا نام آتا ہے کہ وہ منافق تھا۔ باقی 300 صحابہ کہاں گئے؟ ان کے بارے میں کسی کتاب میں کیوں نہیں لکھا گیا؟ ان کے نام کیا تھے؟ ان کے بعد والے کام کیا تھے؟ اخر سنی علماء ان 300 صحابہ کے بارے میں خاموش کیوں ہیں؟ کیا رضی اللہ عنھم و رضو عنہ میں وہ 300 صحابہ بھی شامل کیے جاتے ہیں؟ اور یہ جو بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ نیک لوگ تھے، یہ دعویٰ کس حد تک صحیح ہے؟ جواب کون دے گا؟
قران مجید کی روشنی میں:
وَ مِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ ،
وَ مِنْ اَهْلِ الْمَدِیْنَةِ مَرَدُوْا عَلَى النِّفَاق
-لَا تَعْلَمُهُمْؕ-نَحْنُ نَعْلَمُهُمْؕ-
سَنُعَذِّبُهُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِیْمٍ
(101 سورہ توبہ)
ترجمہ:
اور تمہارے آس پاس دیہاتیوں میں سے کچھ منافق ہیں اور کچھ مدینہ والے (بھی )وہ منافقت پر اڑگئے ہیں ۔(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) تم انہیں نہیں جانتے ، ہم انہیں جانتے ہیں ۔ عنقریب ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے پھر انہیں بڑے عذاب کی طرف پھیرا جائے گا۔
قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " فِي أَصْحَابِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا فِيهِمْ ثَمَانِيَةٌ لاَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ ثَمَانِيَةٌ مِنْهُمْ تَكْفِيكَهُمُ الدُّبَيْلَةُ وَأَرْبَعَةٌ " . لَمْ أَحْفَظْ مَا قَالَ شُعْبَةُ فِيهِمْ .
یہ حدیث مسلم شریف کی ہے اور اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میرے صحابیوں میں 12 لوگ منافق ہیں۔
صحیح مسلم
كتاب صفات المنافقين وأحكامهم
کتاب نمبر 51
حدیث نمبر 2779
(منافقوں کی آپؐ کو قتل کرنے کی سازش(، ۹ ہجری
غزوہ ٔ تبوک سے واپسی پر تقریباً ۱۵ منافقوں نے یہ سازش تیار کی کہ آپؐ کی کھلے راستہ کی بجائے گھاٹی والے راستہ کی طرف رہنمائی کی جائے اور جب آپؐ وہاں پہنچ جائیں تو آپؐ کو سواری سے اٹھا کرنیچے گھاٹی میں پھینک کر ہلاک کردیا جائے۔ اسی سازش کے تحت آپؐ کی سواری کو اس راہ پر ڈال دیا گیا۔ حذیفہ بن یمان آپؐ کے ہمراہ تھے۔ جب گھاٹی قریب آنے کو تھی تو چند منافق منہ پر ٹھاٹھے باندھے رات کی تاریکی میں آپؐ کی طرف بڑھنے لگے۔ دریں اثناء آپؐ کو وحی کے ذریعہ منافقوں کے
اس مذموم ارادہ کی اطلاع مل گئی تھی۔
آپؐ نے حضرت حذیفہ بن یمان کو ان منافقوں کے نام اور ان کے باپوں کے نام بھی بتلا دیئے تھے۔ حضرت حذیفہ ان کو پہچانتے بھی تھے۔ تاہم رسول اللہﷺ نے انہیں یہ بھی فرما دیا تھا کہ عام مسلمانوں میں انہیں مشہور نہ کیا جائے۔ یہ سازشی منافق بعد میں اہل عقبہ کے نام سے
مشہور ہوئے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے کہ عبد اللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی آیا اور کہنے لگا: ’’یارسول اللہ! انصاف سے تقسیم کیجئے۔‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’تیرا ناس ہو، اگر میں انصاف نہیں کرتا تو اور کون کرے گا؟‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس (منافق) کی گردن مار دوں۔‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے چھوڑ دو، اس کے ایسے ساتھی بھی ہوں گے کہ تم میں سے کوئی اپنی نماز کو ان کی نماز کے مقابلے میں حقیر جانے گا، اور اپنے روزے کو ان کے روزے کے مقابلے میں حقیر سمجھے گا، وہ قرآن کی تلاوت کریں گے لیکن (ان کے حلق سے نیچے) نہیں اترے گا، وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔‘‘
**حوالہ جات**:
- صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب بعث النبی صلی اللہ علیہ وسلم علیا رضی اللہ عنہ و خالد بن ولید الی الیمن۔
- صحیح مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب التحذیر من زھرة الدنیا
البتہ میرا عقیدہ ہے کہ جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے صحابہ تھے، اللہ تعالیٰ، انشاء اللہ، ان سب پر رحم فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین۔
Comments
Post a Comment
Thank you for commenting. Your comment shows your mentality.