کیا ووٹ ڈالنا کفر ہے؟
کچھ لوگ ووٹ اس لیے نہیں ڈالتے ہیں کیونکہ اُن کو کہا گیا ہے کہ ووٹ ڈالنا کفر ہے یا ووٹ ڈالنا ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ اُن کو سمجھایا گیا ہے کہ ووٹ ڈالنے کا مطلب ہے 'جمہوری نظام کا ساتھ دینا' اور جمہوریت اسلام کے خلاف ہے۔ اُن کو مزید بتایا جاتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو ووٹ ڈالنا یا جمہوریت یا بادشاہت یا سامراجیت نہیں سکھائی ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو صرف خلافت سکھائی ہے اسی لیے حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی اور حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہم مسلمانوں کے خلفاء رہے ہیں، نہ وہ بادشاہ رہے ہیں اور نہ ووٹ حاصل کرنے کے بعد منتری۔
اب سوال یہ ہے کہ دنیا کے کس مسلمان ملک یا کس ملک میں آج خلافت رائج ہے؟ پاکستان، مصر، سعودی عربیہ، یمن، شام ،ایران، ترکی وغیرہ مسلمان ملکوں میں عام مسلمان سڑکوں پر آ کر بادشاہت یا جمہوریت کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کرتے ہیں؟ آخر کیوں بھارتی مسلمان کو خلافت کا لولی پاپ دِکھایا جا رہا ہے؟ کیا ہم نے اپنی مسجدوں کا، اپنے درسگاہوں کا اور اپنا اپنا پیسہ بینکوں میں نہیں رکھا ہے؟ کیا ہمارا اسلام صاف صاف نہیں فرما رہا ہے کہ سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود کے نظام میں کسی طرح کی مدد کرنے والے جہنمی ہیں؟ یہاں پر ہم سب چپ کیوں ہیں؟ ہم صرف ووٹ ڈالتے وقت ہی مسلمان کیوں بن جاتے ہیں؟
آخر کس قرآن اور کس حدیث میں لکھا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی کلاس روم میں لڑکوں اور لڑکیوں کو اکٹھے پڑھانے کا حکم دیا ہے؟ کس اسلامی کتاب میں لکھا ہے کہ مرد لوگ لڑکیوں کو پڑھا سکتے ہیں یا عورتیں لڑکوں کو پڑھا سکتی ہیں؟
کہاں لکھا گیا ہے کہ عورتیں مردوں کی طرح پیسے کمانے کے لیے ملازمت کر سکتی ہیں؟
کب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یا کسی صحابی نے اپنے گھر کی عورتوں کو ملازمت کرنے کے لیے گھر سے باہر بھیجا ہے؟
اگر سود کھانا اور کھلانا یا بینک کے لون پر کاروبار کرنا، گاڑیاں اور گھر لینا یا بینک کے ذریعے لین دین کرنا سنت یا فرض ہے ، تو یہ کس اسلامی کتاب میں لکھا گیا ہے اور مولوی حضرات یہ بات عوام کو کیوں نہیں بتا رہے ہیں؟ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کس بچے کا جنم دن منایا ہے اور کیک کاٹا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کس بچی کا نکاح بینڈ، باجا اور بارات کے ساتھ کیا ہے جس طرح آج ہم اپنے بچے اور بچیوں کے نکاح کرتے ہیں؟ کس چور یا بلتکاری انسان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو چار دن جیل میں رکھ کر پھر جرمانہ یا پیسے لے کر چھوڑا ہے؟ کہاں گئے وہ سارے اسلامی قوانین؟ کب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یا کسی صحابی نے رشوت دے کر سرکاری نوکری حاصل کرنے کی صلاح دی ہے؟
بھائی، اس حمام میں ہم سب ننگے ہیں۔ شراب نہ پینے والے کو صرف شراب نہ پینا اسلام لگتا ہے۔ ووٹ نہ ڈالنے والے کو صرف ووٹ نہ ڈالنا اسلام لگتا ہے۔ رشوت نہ لینے والے کو صرف رشوت نہ لینا اسلام لگتا ہے۔ جنم دن نہ منا نے والے کو صرف جنم دن نہ منانا اسلام لگتا ہے۔
سچ بات تو یہی ہے کہ جو اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں 632 عیسوی میں دیا تھا، اُس اسلام کا دسواں حصہ بھی آج ہماری زندگیوں میں موجود نہیں ہے۔ ہم آج ایک دوسرے پر کفر اور بدعت کے فتوے لگا رہے ہیں۔ اگر اللہ تعالی آج پھر سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک یا دو مہینوں کے لیے اس دنیا میں واپس بھیجیں گے تو وہ ہم سب مسلمانوں کو دیکھ کر بہت غمگین ہوں گے۔
ایک بھارتی مسلمان کو زندہ رہنے کے لیے ادھار کارڈ، راشن کارڈ، الیکشن کارڈ، پاسپورٹ، زمین اور مکان کے قانونی کاغذات، بجلی، پانی، سڑکیں، تعلیم ،نوکری وغیرہ جیسے سینکڑوں چیزیں چاہیے تو یہ سب چیزیں اس بیچارے مسلمان کو بھارتی نظام کے خلاف کھڑا ہو کر نہیں بلکہ بھارتی نظام کو تسلیم کرنے کے بعد ملیں گی۔ وقت کا تقاضہ یہی ہے کہ ہمیں اس نظام کو سمجھنا ہے یا پھر اُس ملک میں ہجرت کر کے جانا ہے جہاں وہی نظامِ زندگی ہو جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں 632 عیسوی میں دیا تھا۔
امیر اور چالاک لوگ گورنمنٹ کا ساتھ دے کر ہزاروں فائدے اٹھاتے ہیں لیکن غریب اور سیدھے سادے لوگوں کو کفر ،بدعت، ناجائز، غلط، نامناسب جیسے الفاظ سُنا سُنا کر گورنمنٹ کے فائدوں سے دور رکھا جاتا ہیں۔
آج کے اس الیکشن میں کھڑا ہونے والے نمائندے، چناوی نمائندوں کے آگے پیچھے نعرے لگانے والے لوگ، جس جگہ ووٹ ڈالے جاتے ہیں وہاں حفاظت کرنے والے، ووٹروں کی تلاشی لینے والے، ووٹنگ سینٹر کے اندر بیٹھے ہوئے الیکشن ڈیوٹی دینے والے پروفیسر، لیکچرر، ٹیچر، پٹواری، ایجنٹ وغیرہ لگ بھگ سب مسلمان تھے اور سب اپنی اپنی نوکریاں بچانے کے لیے یا پیسے کمانے کے لیے دل و جان سے اپنا اپنا کام کر رہے تھے۔ اگر ان سب کو معاف کیا جا سکتا ہے تو پھر ایک غریب انسان جو پانی، بجلی ،راشن کارڈ وغیرہ کے لیے ووٹ ڈالتا ہے، اُس کو بھی معاف کیا جا سکتا ہے۔ منافقت سے پردہ اٹھاؤ اور سچائی کو بے نقاب کرو۔ دوسری یہ بات ہے کہ کچھ لوگ ایک پارٹی کے لیڈر کو گالیاں دیتے ہیں اور دوسری پارٹی کے لیڈر کے گیت گاتے ہیں۔ ایک پارٹی کے لیڈر کو مردِ مومن سمجھتے ہیں لیکن دوسری پارٹی کے لیڈر کو غدار اور چور سمجھتے ہیں۔ ایسی باتیں کرنے والے لوگوں کو برا بھلا نہیں کہنا چاہیے کیونکہ وہ یہ سب باتیں اپنا اپنا گھر چلانے کے لیے کرتے ہیں۔
میرا لیڈر وہی ہے جس نے مجھے فائدہ پہنچایا خواہ وہ لیڈر مسلمان ہے یا غیر مسلم۔
تیرا لیڈر بھی وہی ہے جس نے تم کو فائدہ پہنچایا ہو، چاہے وہ لیڈر مسلمان ہے یا غیر مسلم۔ تم کسی لیڈر کی نجی زندگی پر بات نہ کرو۔ تم صرف اس کی عوامی خدمت اور عوام کے لیے کیے ہوئے کاموں پر بات کرو۔
ووٹ ڈالنا کفر ہے یا عبادت، یہ فیصلہ کرنے کا حق دنیا میں ملوں نے لیا ہے۔ اِس کا اصل فیصلہ کل قیامت کے دن ہوگا۔
فی الحال آپ وہی کام کرو جس سے آپ کے دل کو سکون ملتا ہے اور جس سے آپ کا گھر پریشانیوں سے محفوظ رہتا ہے۔
!اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو!
Comments
Post a Comment
Thank you for commenting. Your comment shows your mentality.