غزل
ہر ایک بات زبان پہ لانا مت
اپنے ہاتھوں سے اپنا گلا دبانا مت
دوستی ہو یا دشمنی چُھپ کے کرو
راز اپنے کسی کو بتانا مت
ایک ایک احمق کی خبر رکھو مگر
کسی کو بھی احمق پکارنا مت
ہوس کی آگ کا تماشائی ہے دنیا
تماشہ دیکھ ، تماشے کو بُجھانا مت
روایت ہے ملزم بری، پھانسی گواہ کو
ثبوت ہو بھی تَو گواہی دینا مت
قوم تیرا بے وفا صنم جیسا
مُجاہد، جان اپنی گنوانا مت
جانے والوں سے نہ کہو "ٹھہرو"
لوٹ آئیں تو پہچاننا مت
بُھولنے والے ہوتے ہیں بے وفا ساحِلؔ
بے وفاؤں سے وجہ پُوچھنا مت
Comments
Post a Comment
Thank you for commenting. Your comment shows your mentality.