غزل ساحِلؔ شریف الدین بٹ کی
کوئی مسیج نہ فون کال، خفا ہے کیا ؟
ہم سے ہوئی کوئی ، خطا ہے کیا ؟
میرے مُنصف، مجھے تیرا ہر فیصلہ منظور
توبہ ، زہر یا پھانسی ، سزا ہے کیا ؟
یہ کون گُلاب لے کے گُھٹنوں پہ بیٹھا ؟
اِس شہر میں یہ عاشق نیا ہے کیا ؟
یہ آہیں ، یہ آنسو ، یہ خُود کشی کی باتیں ؟
یہ ابتدائے عشق ہے ، تھکا ہے کیا ؟
اِن حسینوں کے لب سبھی کیوں چومتے ہیں؟
اِن میں آبِ حیات یا شفا ہے کیا ؟
تُو ہر کسی کو جہنمی سمجھتا ہے ۔
تُو جبرئیل یا نبٌی یا خُدا ہے کیا ؟
کروڑوں بلب جلتے ہیں۔ اندھیرا نہ گیا۔
کسی کے پاس مٹی کا کوئی دیا ہے کیا ؟
تم ہر کسی کے ترقی سے جلتے ہو ۔
سچ سچ بتا تُو امریکا ہے کیا ؟
تیر ے چہرے سے لگتا ہے تم ساحِلؔ ہو ۔
وہی ہو یا آنکھوں کا دھوکا ہے کیا ؟
Comments
Post a Comment
Thank you for commenting. Your comment shows your mentality.