©️ Image courtesy; rightful owner |
قربانی کرنا اصل میں اللہ تعالیٰ کے لیے اپنی محبت کا اظہار ہے اور محبت میں نفع و نقصان نہیں دیکھا جاتا۔
جب ہمیں اپنے بیٹے یا بیٹی کا نکاح ہوتا ہے تو سینکڑوں بکرے ذبح کیے جاتے ہیں۔ دنیا میں گوشت ایکسپورٹ کرنے والی کمپنیاں ہر دن لاکھوں جانور کاٹتی ہیں، تب کسی کو جانوروں کے حقوق یاد نہیں آتے۔ فاسٹ فوڈ بیچنے والی کمپنیاں (کے ایف سی، میکڈونلڈ، برگر کنگ وغیرہ) روزانہ کتنے جانور کاٹتی ہیں، اس کی فکر کسی کو نہیں ہوتی۔ اپنا گھر بنانا ہو یا اپنے کچن میں کھانا بنانا ہو، لوگ بے تحاشا درخت ،جانور اور پودے کاٹ دیتے ہیں۔ کسی درویش کا عرس ہو تو سارا ملک بند کر دیا جاتا ہے۔ کسی حکمران کا جنم دن ہو یا قومی شہید کا دن، پورا ملک بند ہو جاتا ہے۔ یومِ آزادی ہو یا یومِ جمہوریت، تمام اسکول، کالج، یونیورسٹیاں اور دفاتر بند کر دیے جاتے ہیں۔ خدا کو چھوڑ کر کسی شخص یا ادارے سے محبت کا اظہار کرنا ہو تو لوگ نفع و نقصان نہیں دیکھتے۔ مگر جب عید کے دن قربانی کا مسئلہ آتا ہے تو ہر چھوٹے اور غیر اہم شخص کو جانوروں کے حقوق کی بات یاد آ جاتی ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کی وجہ سے لوگوں کو اتنی زیادہ تکلیف کیوں ہوتی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اِس شیطانی نظام کے آنکھوں میں اسلام مرچی بن کر گِر جاتا ہے؟
پختہ مسلمانوں سے درخواست ہے کہ اپنے اللہ تعالی کی محبت میں قرآن و حدیث کی رہنمائی میں جو بھی چیز کرنے کی اجازت ہے وہ خوشی سے کر لیں۔ جس دن یہ شیطانی نظام سارے جہاں میں سارے نقصان دہ کام بند کرنے میں کامیاب ہو جائے گا اُس دن ہم مسلمان بھی اپنے استعمال کے لیے پیڑ پودے کاٹنا اور گوشت کھانا اور قربانی کرنا بند کر دیں گے۔
قربانی کا اصلی مقصد؟
قربانی اصل میں اُس بڑے اور مشہور واقعہ کی یادگار ہے، جب ہزاروں سال پہلے حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنے بیٹے اور لختِ جگر کو قربان کرنا چاہا۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کی محبت اور امتحان میں ان کی وفا کو دیکھتے ہوئے ان کی قربانی کو قبول کر کے ان کے بیٹے یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جان بخش دی۔ تو پتہ چلا کہ یہ قربانی محبت کا مسئلہ ہے اور محبت کے مسئلے نفرت کرنے والوں کی سمجھ میں کبھی نہیں آ سکتے ہیں۔
یہ عمل محبت، اطاعت، اور تسلیم کی مثال تھی جس نے ابراہیم علیہ السلام کی فداکاری اور خودسپردگی کو ظاہر کیا۔ اس واقعہ نے ایک ایسا نمونہ قائم کیا جسے پہلے اور بعد میں بھی دنیا نے نہیں دیکھا۔ اسلام نے اس عبرت آمیز واقعہ کو امتِ مسلمہ کے لئے ایک یادگار بنا دیا جو ہر سال مسلمانوں کو ابراہیم علیہ السلام کی طرح وفا، تسلیم، اور رضا کی عہد و پیمان کی تجدید کرتا ہے۔ اس واقعہ نے ابراہیم علیہ السلام کے نقوشِ جاودان کو زندہ و تابندہ کیا ہے تاکہ اہل ایمان اور رحمان کے بندے اس راہ سے منحرف نہ ہوں اور ان کے پاؤں پھسلے نہ پائیں۔
آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گُلستاں پیدا
Comments
Post a Comment
Thank you for commenting. Your comment shows your mentality.