ووہ ایک معصوم لڑکا
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
سارے لوگ گنہگار ہیں لیکن ہر کوئی دوسرے کو گنہگار اور اپنے آپ کو پارسا، نیک بخت اور نیک سیرت سمجھتا ہے۔ یہی ایک سبب ہے کہ جب ایک ذہین انسان اپنے ارد گرد کے لوگوں کو قریب سے سمجھتا ہے تو اس کو انسانوں سے نفرت ہونے لگتی ہے اور وہ پیڑ پودوں اور جانوروں سے محبت کرنے لگتا ہے۔ موجودہ دور کے انسان شروع میں بہت میٹھے لگتے ہیں، لیکن جوں جوں وقت گزرتا ہے وہ کڑوے ہوتے جاتے ہیں۔ موجودہ دور کے انسان کی رگوں میں غرور، تکبر، جہالت اور ضد خون کے بجائے دوڑتے ہیں۔
اصل میں مجھے آپ کو ایک معصوم لڑکے کی کہانی سنانی ہے۔ ایک گاؤں میں ایک معصوم لڑکا رہتا تھا۔ وہ باقی لڑکوں کی طرح سکول جاتا تھا اور فرصت میں ان کے ساتھ کھیلتا اور ہنسی مذاق کرتا تھا۔ ایک دن اس نے محسوس کیا کہ اسے اللہ تعالی کی عبادت کرنی چاہیے، یعنی روزانہ مسجد میں جا کر نماز پڑھنی چاہیے۔ وہ مسجد جانے لگا اور نمازیں پڑھنے لگا۔ مسجد میں جا کر اس کو پتہ چلا کہ نماز پڑھنے کے مسلمانوں میں کئی طریقے رائج ہیں۔ کوئی بریلوی طریقے سے نماز پڑھتا ہے، کوئی تبلیغی جماعت کے طریقے سے، اور کچھ لوگ دیگر طریقوں سے نماز پڑھتے ہیں۔
اس معصوم لڑکے نے مسجد اسی لیے جانا شروع کیا تھا تاکہ اسے سکون ملے، لیکن بدقسمتی سے مسجد میں مختلف لوگوں کو مختلف طریقوں سے نماز پڑھتے دیکھ کر وہ پریشان ہو گیا۔ اس کے ذہن میں سوالات اٹھنے لگے اور ان کے جوابات ڈھونڈنے کے لیے اس نے کئی درسگاہوں میں قرآن مجید، احادیث شریف، سیرت پاک، تاریخِ اسلام اور دیگر علوم کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ جوں جوں اس کا مطالعہ گہرا ہوتا گیا، اس کے سوالات بھی بڑھتے گئے۔ کبھی وہ بریلوی مکتب فکر کے طریقے پر نماز پڑھتا، تو کبھی تبلیغی جماعت کے طریقے پر۔ آگے چل کر اس نے جماعت اسلامی، اہل حدیث اور شیعہ طریقوں کے بارے میں بھی علم حاصل کیا۔
اس سفر کے دوران، کبھی وہ ٹھیک رہتا تھا تو کبھی پریشان۔ کبھی اچھے سوالات کرتا تھا تو کبھی کڑوے سوالات بھی۔ ایک وقت آیا جب اسے لگا کہ کوئی بھی مسلک مکمل اسلام بیان نہیں کرتا ہے اور نہ ہی مکمل اسلام پر عمل کرتا ہے۔ ایک مسلک نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ من پسند محبت کو اسلام کا نام دیا ہے تو دوسرے مسلک نے اللہ تعالی کے ساتھ من پسند محبت کو اسلام کا نام دیا ہے۔ ایک مسلک ایک عام مسلمان کو دن رات عبادت اور ذکر و اذکار میں مصروف رکھنا چاہتا ہے تو دوسرا مسلک ایک مسلمان کو اپنے حقوق اور آزادی کے لیے لڑانا چاہتا ہے۔
یہ سب چیزیں اسے بہت پریشان کر رہی تھیں۔ اب اس لڑکے کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے لوگ اس سے نفرت کرنے لگے کیونکہ وہ لوگ اپنے اپنے مسلکوں کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے جبکہ یہ معصوم لڑکا حقیقت کی تلاش میں تھا اور اصلی اسلام جاننا چاہتا تھا جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے لایا تھا۔ جس مسلک کے خلاف وہ سوالات اٹھاتا، اس مسلک کے لوگ اسے نفرت کرتے اور اس کے خلاف غلط افواہیں پھیلاتے تھے۔ جب اس معصوم لڑکے کو پتہ چلا کہ ایک داڑھی، ٹوپی، سفید لباس اور دن میں پانچ وقت مسجد جانے والا انسان بھی عام بے وقوف اور جاہل لوگوں سے بہتر کردار کا نہیں ہے، تو اس کی نفرت ان لوگوں اور ان کے مسلکوں کے ساتھ اور بھی بڑھ گئی۔
ایک وقت آیا جب اس نے مسجدوں میں جانا بند کر دیا اور مختلف مسلکوں سے وابستہ لوگوں سے دور رہنا پسند کیا۔ اس قدم سے اس کی زندگی میں سکون لوٹ آیا اور وہ اپنے گھر میں اسلام کی کتابوں کا گہرا مطالعہ کرنے لگا۔ وقت گزرتا گیا اور وہ لوگ جن کے چہروں پر اسلامی نقاب تھا، وہ نقاب اتر گئے اور ان کے شیطانی چہرے دنیا کے سامنے آگئے۔ اس طرح اللہ تعالی نے انہیں رسوا کیا۔
اس معصوم لڑکے نے اسلام اور مسلمانوں کے دفاع میں کئی مضامین، کتابیں اور اچھے کام کیے۔ جو لوگ اس پر بھونکتے تھے اور اس کے خلاف غلط افواہیں پھیلاتے تھے، وہ وقت کے ساتھ رسوا ہوتے گئے اور دنیا کے منظرنامے سے ہمیشہ کے لیے غائب ہو گئے۔
اللہ تعالی نے قرآن میں ہمیں صبر کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر کوئی انسان ہماری نظر میں اچھے کام کرتا ہے تو ہمیں اس کا ساتھ دینا چاہیے اور اگر وہ برے کام کرتا ہے تو ہمیں اللہ تعالی کے حضور میں اس کے لیے دعائیں کرنی چاہیے، لیکن اس کے خلاف غلط افواہیں نہیں پھیلانی چاہئیں۔ اللہ تعالی جسے ہدایت دیتا ہے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ ہمارا کام ہے کہ ہم صبر کریں اور ان لوگوں کے لیے دعائیں کریں جو ہماری نظر میں برے کام کرتے ہیں۔
ہمیں کسی انسان سے نفرت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ وہ ہماری بات نہیں مانتا یا ہمیں ایسے سوالات پوچھتا ہے جن کے ہمارے پاس جوابات نہیں ہوتے۔ ہمیں اپنی جہالت کو بچانے کی کوشش میں کسی ذہین انسان کی زندگی میں مشکلات پیدا کرنے کا کوئی حق نہیں۔ جو لوگ ہماری نظر میں برے ہوتے ہیں، شاید وہ اللہ تعالی کی نظر میں بہت اچھے ہوں۔ ہمیں برے لوگوں کے معاملات اللہ تعالی کے سپرد کرنے چاہئیں اور یہ کبھی نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہم جنتی ہیں یا ہم بہت بڑے علماء اور پرہیزگار ہیں۔ ایسی سوچ اور کردار سے ہم اپنا اور اپنے مسلک کا نام بدنام کرتے ہیں۔
میری نظر میں وہ انسان بہت اچھا ہے جو اپنے کام سے کام رکھتا ہے، نیک لوگوں کی حمایت کرتا ہے اور برے لوگوں کے معاملات اللہ تعالی کے سپرد کرتا ہے۔ میں جب اس معصوم لڑکے کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اگر اللہ تعالی بھی لوگوں کی طرح بے صبر ہوتا تو اس معصوم لڑکے کا کیا حشر ہوتا۔ اس لڑکے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اگر اللہ تعالی نے چاہا، تو وہ اپنے سماج، اسلام اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کی بہت خدمت کرے گا۔ وہ ان لوگوں سے بہتر ہے جو صرف اس لیے اس سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ وہ ان جیسا تنگ ذہن اور مسلک پرست نہیں ہے۔ وہ ایک بڑا انسان ہے، اس کی سوچ بڑی ہے، وہ کسی گھر، مسلک یا گروہ کا پیروکار نہیں بلکہ ساری انسانیت کے لیے سوچتا ہے۔
اسے لوگوں کے اچھا یا برا کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ اللہ تعالی کے لیے کام کرتا ہے۔ اگر اللہ تعالی اس سے خوش ہے تو وہ لڑکا خوش ہے اور اگر اسے لگتا ہے کہ اللہ تعالی ناراض ہے تو وہ ناراض رہتا ہے۔ ایسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ بازاروں میں ملنے والے لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ ان سے نفرت کرنے والے اور دشمنی رکھنے والے نیست و نابود ہو جاتے ہیں۔ ایک انسان کو سچائی اور گہرا علم زندہ رکھتا ہے، اسے اپنی اولاد زندہ نہیں رکھتی۔ مغل بادشاہوں کے دس دس بیٹے تھے لیکن آج مغل بادشاہوں کا نام لینے والا کوئی نہیں۔ لیکن وہ علماء جنہوں نے سچائی اور علم کی خدمت کی، وہ آج بھی زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
رہے گا تو ہی زمانے میں یگانہ ویکتا
اتر گیا جو تیرے دل میں لا شریک لہ
Wahhh...kya baat hai yaar.
ReplyDelete