غیبی مدد کس سے مانگے؟
اگر حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام کے امتی نے بلقیس کا تختہ یمن سے فلسطین لایا تو اس امت کا آج کا کوئی امّتی مسجدِ اقصی کو سعودی عرب لے جا سکتا ہے یا امریکی ہتھیاروں کو فلسطین کے مسلمانوں کے حوالے کر سکتا ہے؟
کچھ لوگ قرآن کو غلط طور پر سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جو معجزات اللہ تعالیٰ نے پچھلے انبیاء کو دیے تھے، وہ سب معجزات ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت کو ملے ہیں، حالانکہ اس کی کوئی معتبر دلیل نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، وہ یہ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے حضرت بلقیس کا تختہ یمن سے فلسطین لایا، وہ بھی ایک وزیر/امتی کی مدد سے۔ تو کچھ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر حضرت سلیمان علیہ السلام کا وزیر وہ کام کر سکتا ہے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی کیوں نہیں کر سکتے؟ یہی دلیل وہ پیش کرتے ہیں جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ قبر والوں سے کیوں مدد مانگتے ہو؟ حالانکہ حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام نے تختہ دیکھ کر فرمایا "ھذا من فضل ربی" (27:40) ، یعنی یہ تختہ یمن سے فلسطین میرے رب کے فضل سے آیا۔ انہوں نے اُس اپنے وزیر یا امتی کے قبر پر کوئی آستان نہیں بنایا اور پھر اپنے باقی امتیوں کو نہیں کہا کہ جاؤ اس امتی کے آستان یا قبر پر ماتھے رگڑو اور مدد مانگو۔
لیکن وہ مسلمان جو "ایاک نعبد و ایاک نستعین" کو سمجھ چکا ہے، ایسی باتیں ہرگز نہیں کرے گا۔ ایک اچھا مسلمان یہ بنیادی سوالات اٹھاتا ہے:
- اگر قرآن مجید میں بیان کیے گئے ہر واقعہ پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو عمل کرنا ہے، تو جب فرشتوں نے حضرت آدم کو سجدہ کیا، صحابہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیوں نہیں کیا؟
- اگر حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے قریبی رشتہ داروں نے سجدہ کیا، تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے قریبی رشتہ داروں نے کبھی سجدہ کیوں نہیں کیا؟
- اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے تو اس امت میں کوئی شخص بغیر باپ کے کیوں پیدا نہیں ہوا؟
- اگر حضرت خضر علیہ السلام نے ایک بچے کو اس لیے قتل کیا کیونکہ وہ بڑا ہو کر اپنے والدین کا نام خراب کرتا، تو اس امت میں کوئی خضر جیسا شخص کیوں نہیں اٹھتا جو خراب لوگوں کو بچپن میں ہی قتل کر دے؟ حالانکہ حضرت خضر علیہ السلام قرآن مجید میں فرماتا ہے " و ما فعلتہ عنہ امری" (18:82) یعنی میں نے یہ کام اپنی طاقت سے نہیں کیا.
- اگر اصحاب کہف تقریباً 300 سال بعد زندہ ہوئے یا حضرت عزیر علیہ السلام سو سال بعد زندہ ہوئے، تو اس امت میں کتنے بزرگ مرنے کے بعد اس طرح زندہ ہوئے؟ آج 2024 میں مسلمانوں کو سخت ضرورت ہے کہ پرانے طاقتور بزرگ آج زندہ ہو جاتے اور فلسطین ،لبنان ، شام اور عراق وغیرہ کے مسلمانوں کی قیمتی جانیں امریکی فوجیوں اور اسرائیلی فوجیوں سے بچا تے ۔
مختصر یہ ہے کہ کچھ مولوی اپنی دکانیں چلانے کے لیے قرآن و حدیث کے نام پر امت کو گمراہ کر رہے ہیں اور مسلمانوں کو اسلام سے دور کر رہے ہیں۔ اگر کسی زندہ یا مردہ مولوی میں واقعی طاقت ہے تو اسے کہو کہ مسجد اقصیٰ کو اٹھا کر سعودی عرب یا کشمیر میں رکھ دے تاکہ ہمیں یہودیوں سے روز روز لڑائی نہ کرنی پڑے۔یا اس سے کہو کہ امریکہ کے بہترین طیارے چرا کر مسلمان ممالک میں رکھ دے تاکہ مسلمانوں کی طاقت میں اضافہ ہو اور غیر مسلم اُن سے خوف کھائیں۔ یا ان مولویوں سے کہو کہ مسلمان ملکوں کے غریب دیہات اور شہروں کو یورپ منتقل کر دو اور یورپ کے امیر دیہات اور شہروں کو مسلمان ملکوں میں لے آؤ، بالکل اسی طرح جیسے حضرت بلقیس کا تختہ یمن سے فلسطین منتقل کیا گیا۔ اگر یہ جھوٹ بولنے والے مولوی اور قرآن و حدیث کو غلط سمجھنے والے مولوی یہ کام کر سکتے ہیں، تو ہم بھی قبر والوں اور ان مولویوں سے مدد مانگنا شروع کریں گے۔ جب تک یہ گمراہ کرنے والے مولوی ایسے کام نہیں کر سکتے ہیں، تب تک ہم صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے اور ہر قسم کی غیبی مدد اسی ایک اللہ سے مانگیں گے۔ تب تک ہم "ایاک نعبد و ایاک نستعین" پر عمل کرتے رہیں گے۔ تب تک ہم قبر والوں کو احترام کریں گے مگر عبادت نہیں کریں گے ، ان سے مدد نہیں مانگیں گے اور ان سے ہرگز نہیں ڈریں گے۔ تب تک ہم اسی ذات کی عبادت کریں گے اور اسی ذات سے مدد مانگیں گے جس ذات سے ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مدد مانگتے تھے اور عبادت کرتے تھے۔
کچھ لوگ نادانی میں یہاں تک کہتے ہیں کہ جب ایک بچّہ اپنی ماں سے کھانا مانگ سکتا ہے یا ایک دوست اپنے دوسرے دوست سے پیسے ادھار مانگ سکتا ہے تو ہم قبر والوں سے مدد کیوں نہیں مانگ سکتے؟ یہ لوگ ظاہری اور غیبی مدد کو خلط ملط کر کے معصوم مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ ماں سے کھانا مانگنا اور قبر والے سے مدد مانگنا دو بالکل مختلف باتیں ہیں۔ ماں سے ہم ظاہری مدد مانگتے ہیں، جبکہ قبر والے سے غیبی مدد طلب کی جاتی ہے، جو کہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ کیا ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی پیغمبر کو مدد کے لیے پکارا ہے یا کسی شہید شدہ صحابی کو مدد کے لیے پکارا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اور صرف اللہ تعالی کو غیبی مدد کے لیے پکارا ہے؟ لیکن ظاہری مدد کے لیے آپ نے کبھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے تو کبھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے تو کبھی کسی اور دولت مند صحابی سے دین اسلام پھیلانے کے خاطر دولت دینے کی گزارش کی ہے۔
اگر یہ بات درست ہوتی کہ قبر والے لوگ دنیا میں زندہ لوگوں کی طرح زندہ ہوتے ہیں اور دنیا میں زندہ رہنے والے لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں، تو ہر گاؤں اور محلے میں قبروں میں موجود بزرگوں پر واجب ہے کہ جب وہ اذان سنیں تو فوراً مسجد میں جماعت نماز ادا کرنے کے لیے آئیں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ان کے ہوتے ہوئے ایک عام مولوی کو امامت کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ نماز کے وقت قبروں سے نکل کر مسجد میں موجود رہنے والے بزرگ کیوں امامت نہیں کرتے؟ یہ سوچ غیر معقول ہے اور ایسے خیالات رکھنے والے افراد عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ دھوکہ دینے والے لوگ جمعہ کے دن مسجدوں کے ممبروں پر بیٹھ کر معصوم عوام کو گمراہ کر تے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں زندہ انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ تعالی کی عبادت کرنا سکھائی تھی مگر موجودہ دور کے جاہل مولویوں نے ہمیں اللہ تعالی سے دور کر کے مردہ انسانوں اور قبرستانوں کی عبادت میں لگا دیا۔
ہمیں چاہیے کہ ہم قرآن مجید کا باقاعدگی سے مطالعہ کریں اور وہی اعمال اختیار کریں جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب رضی اللہ عنہم کرتے تھے۔ یہی ہمارے لیے صحیح راہ ہے۔
آپ کا خادم "ساحِلؔ"
(وما علینا الا البلاغ)
Comments
Post a Comment
Thank you for commenting. Your comment shows your mentality.