میرے دماغ میں جھانک کر دیکھو۔
میں نے زندگی میں انگریزی ادب کا مطالعہ محض پانچ سال کیا اور اور پھر مجھے لوگ اِس میدان میں استاد سمجھنے لگے۔ لیکن دینِ اسلام کا مطالعہ تقریباً بیس سال سے کر رہا ہوں، پھر بھی میں خود کو اسلام کا طالب علم ہی سمجھتا ہوں۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ جب میں قرآن مجید اور صحیح احادیث کا لفظی ترجمہ پڑھتا ہوں، تو میری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ جو شخص اللہ کی عبادت ویسے ہی کرے جیسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سِکھایا، وہ مسلمان ہے۔ اس طرح کا مسلمان بننے کے لیے روزانہ قرآن مجید، صحیح احادیث اور سیرتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ ضروری ہے۔
لیکن افسوس ہے کہ قرآن مجید، صحیح احادیث اور سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ لوگوں نے مختلف فرقوں اور ممالک میں اسلام کی تشریحات کے نام پر لاکھوں کتابیں لکھی، جن میں اکثر ایسی زہر آلود باتیں ہیں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا خون بہانے پر آمادہ ہو جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کو مسلمان تک نہیں سمجھتے۔ کسی نے ضعیف یا موضوع احادیث کو اپنایا مگر قرآن کی آیات کو پس پشت ڈال دیا۔ کوئی تاریخِ اسلام کو مانتا ہے مگر قرآن اور صحیح احادیث سے روگردانی کرتا ہے۔ کوئی ایک مکتبِ فکر کو سینے سے لگاتا ہے تو دوسرے مکتب فکر کا مذاق اڑا رہا ہے۔ کوئی شاعری اور تصوف میں ڈوبا ہے مگر قرآن اور احادیث کو سُننے کو تیار نہیں۔ اور کئی ایسے بھی ہیں جو اس حال کو دیکھ کر اسلام سے ہی دُور جا چکے ہیں۔
میرے نزدیک، اسلام مسلمانوں کی سب سے بڑی طاقت ہے مگر ہم نے خود ہی اسے اپنی کمزوری بنا لیا ہے۔ اصل تو یہ دیکھنا تھا کہ ایک مسلمان اپنے فرائض اور سُنتوں پر کتنا عمل کرتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کون ہمارے مسلک یا فرقے کے مطابق چل رہا ہے۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ہم نے سود ،حرام اور رشوت کے پیسوں سے نہ اپنے گھروں کو محفوظ رکھا اور نہ ہی اپنی مسجدوں اور مدرسوں کو۔
تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھو، جب بھی کسی نبی، اس کے ساتھی یا اس کے پیروکار نے اللہ کے احکام کو پسِ پشت ڈالا، تو اللہ تعالیٰ نے ان پر آزمائشیں نازل کیں۔ کسی نبی کو اولاد کے خاطر رُلایا تو کسی نبی کو مچھلی کے پیٹ میں پہنچایا۔ کسی صحابی کو ظالموں کے ہاتھوں شہید کیا گیا تو کسی کو کڑی آزمائشوں سے گزارا گیا۔ یہ بات تسلیم نہیں کہ اگر ہم سچ میں اس کائنات کے خالق و مالک کے احکام کے مطابق اپنی زندگیاں گزاریں تو ہمیں روزانہ ذلّت کا سامنا ہو۔
ہم ہی عہدِ وفا پر قائم نہ رہ سکے؛
ہمیں اپنے سوا کسی سے گلہ نہیں۔
انیسویں اور بیسویں صدی میں یورپ کے ممالک کی حالت دیکھیں۔ ان لوگوں نے مال و دولت اور تجارت کے خاطر گرجا گھروں کو ترک کر دیا اور بائبل کا مطالعہ کرنا چھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ جنگ عظیم اول اور دوم میں ایک دوسرے کا خون بھی بہایا۔ بلاشبہ ان لوگوں نے ترقی کی، بڑے بڑے گھر اور گاڑیںوں کے مالک ہیں - سمندر کے کنارے، سینما اور ڈانس کلبوں میں مرد و زن اکٹھے ہو کر تفریح کرتے رہے۔ انہوں نے اپنے سارے ادارے عورتوں کے حوالے کئے۔ وقت کے ساتھ، وہاں کی عورتوں نے روایتی لباس (شلوار قمیض) کو چھوڑ دیا۔ لیکن آج اکیسویں صدی میں ان کا حال دیکھیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ شیطان کی پوجا میں مگن ہیں اور بہت سے لوگوں میں جنس کی شناخت کی تمیز مٹتی جا رہی ہے، جس سے وہاں ہم جنس پرستی اور صنفی ابہام عام ہوتا جا رہا ہے۔ اب وہ مجبور ہو کر اپنے اسکولوں میں بائبل کی تعلیم کی پھر طرف لوٹ رہے ہیں۔ یاد رکھیں، ایک اچھی زندگی گزارنے کے لیے جسم اور روح دونوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ پیسوں سے آپ جسم کو موٹا تازہ اور خوش رکھ سکتے ہو لیکن روح کو خوش رکھنے کے لیے آپ کو اپنے خالق سے مضبوط رشتہ جوڑنا ہوگا۔
جب یہاں بھی ہم جنس پرستی وغیرہ جو کچھ آج مغربی ممالک میں ہوتا ہے عام ہو جائے گا ، پھر ہم لوگ بھی قرآن کو سینوں سے لگانا چاہیں گے اور مسجدوں سے باہر نہیں نکلنا چاہیں گے مگر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوگی، ہمارا تہذیب و تمدن ، ذہنی سکون اور روح کا قرار سب ختم ہو چک
ا ہو گا۔
Comments
Post a Comment
Thank you for commenting. Your comment shows your mentality.