دینِ اسلام بُلبُلوں سے نہیں، علمائے کرام سے سیکھو۔
کر بلبل و طاؤس کی تقلید سے توبہ
بلبل فقط آواز ہے طاؤس فقط رنگ
(علامہ اقبال)
کچھ لوگوں نے دین کے ٹکڑے کر لیے اور مختلف جماعتوں میں بٹ گئے، اور ہر جماعت اپنے عقیدے کو ہی درست سمجھ کر خوش ہے۔
(سورہ روم-30)
آج کچھ مسلمان قبروں کی بڑائیاں بیان کرنے میں لگے ہیں۔ کچھ خوابوں اور کہانیوں کا دینِ اسلام کے نام پر سناتے ہیں۔ کچھ توحید کے نام پر ہر جگہ فتنے اور فساد کھڑے کرتے ہیں۔ کچھ گیت و سنگیت کو اسلام سمجھ بیٹھے ہیں۔ کچھ گلی گلی نعرے لگانے کو دین سمجھتے ہیں۔ کچھ پورے سال حرام کی کمائی کرتے ہیں اور عید کے دن نماز پڑھ کر چند غریبوں کو تھوڑے سے پیسے دے دیتے ہیں اور اسی چیز کو دین سمجھتے ہیں۔
آخر کہاں ہیں وہ مسلمان جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے ماننے والے ہیں؟ کہاں ہیں وہ مسلمان جو بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہیں، ننگے غریبوں کو کپڑے پہناتے ہیں، غریب بچوں کو مفت تعلیم دیتے ہیں، غریب لڑکیوں کے نکاح کرواتے ہیں اور ناداروں کے لیے گھر بناتے ہیں؟ کہاں ہیں وہ مسلمان؟
آج کے مسلمان تو معمولی باتوں پر بحث و مباحث اور جھگڑوں میں وقت ضائع کرتے ہیں۔ چار نمازیوں کے لیے کروڑوں کی مسجد بناتے ہیں اور چند افراد کے اجتماع کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ وہ باکردار اور خدمت گزار مسلمان کہاں کھو گئے؟
میں نے آپ کے متن کو زبان، روانی اور اثر کے لحاظ سے درست اور بامحاورہ بنا دیا ہے۔ اصل بات کو برقرار رکھا ہے مگر جملے بہتر ترتیب میں رکھے ہیں:
ہم سب مسلمان ایک ہی ہسپتال میں علاج کراتے ہیں، ایک ہی دفتر میں کام کرتے ہیں، ایک ہی اسکول میں اپنے بچّوں کو پڑھاتے ہیں۔
ہم ایک ہی بس، ٹرین اور جہاز میں سفر کرتے ہیں۔ ہم ایک ہی سبزی فروش سے سبزی اور ایک ہی قصائی سے گوشت خریدتے ہیں۔ ہم ایک ہی تھالی سے وازوان کھاتے ہیں۔
لیکن افسوس! ہم نے مسجدیں الگ الگ بنائیں تاکہ اپنی مرضی کا مولوی لائیں اور اپنی پسند کا بیان سنیں۔ اکثر لوگ مسجدوں میں علما کو نہیں بلکہ گیت و سنگیت کے شوقین مقررین کو بلاتے ہیں۔
جس مولوی کی آواز سریلی ہو اور جو منبر پر چڑھ کر خوش نُما انداز میں تقریر کرے، اس کی تنخواہ بڑھا دی جاتی ہے۔ لیکن جو مولوی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق سادہ انداز میں وعظ و تبلیغ کرے اور بناوٹ اور سریلی آواز سے پرہیز کرے، اُسے کسی بھی مسجد میں ایک مہینے سے زیادہ برداشت نہیں کیا جاتا۔
یاد رکھیں! مسجد میں تبلیغ کرنے کے لیے بلبلوں کو نہیں بلکہ علما کو بلائیے۔ شاید اللہ تعالی ہم پر اور ہماری آنے والی نسلوں پر رحم کرے!
مجھے نہیں معلوم کہ اس فرقہ بندی نے مسلمانوں کو کتنا نقصان پہنچایا ہے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے دس نوجوانوں میں سے آٹھ دینِ اسلام سے دُور ہو چکے ہیں اور الحاد کی طرف مائل ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے رحم نہ کیا تو اندیشہ ہے کہ ہماری آنے والی نسل مکمل طور پر لادین اور ملحد بن جائے گی۔ یورپ کی طرح ہمارے یہ عبادت گاہ میوزیموں میں تبدیل کیے جائیں گے۔ 😭
Comments
Post a Comment
Thank you for commenting. Your comment shows your mentality.