©️Image credit; rightful owner |
نوجوان انجینئر علی محمد مرزا کے دیوانے کیوں ہیں حالانکہ وہ مفسر ہے نہ محدث، مفتی ہے نہ معلّم؟
جب عیسائی پادریوں کے ظلم، جبر اور استبداد سے تنگ آ کر عیسائی عوام نے بغاوت کی، تو پہلے پروٹسٹنٹ عیسائیت کا نظریہ پیش کیا گیا۔ لیکن جب اس سے بھی اطمینان نہ ہوا تو انہوں نے چارلس ڈارون جیسے مفکرین کے خیالات کو اپنایا۔ مطلب یہ کہ عیسائی پادریوں کے ظلم نے یورپ کے لوگوں کو چارلس ڈارون کا دیوانہ بنا دیا۔ حالانکہ آج بھی یورپ میں سو میں سے ننانوے لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کائنات خود بخود وجود میں نہیں آ سکتی۔ اتنی خوبصورت اور منظم کائنات کسی عظیم خالق کے بغیر ممکن نہیں۔ جیسا کہ ہمارا ایک گلوکار کہتا ہیں:
"کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے، وہی خدا ہے، وہی خدا ہے۔"
اسی طرح، مسلمان نوجوان قبر پرستی، پیر پرستی، اور دیگر بے بنیاد رسومات سے اس قدر تنگ آ چکے ہیں کہ اب وہ کسی بھی ایسے شخص کے پیچھے چلنے کو تیار ہیں جو انہیں صرف ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلائے اور اپنی تمام حاجات اسی ایک اللہ سے مانگنے کا درس دے۔ یہی ایک وجہ ہے کہ نوجوان طبقہ انجینئر علی محمد مرزا کی طرف مائل ہو رہا ہے۔ حالانکہ یہ شخص نہ مفسر ہے، نہ محدث، نہ مفتی، اور نہ ہی کوئی ممتاز عالمِ دین۔
میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ آج لوگ اس کے گرویدہ اس لیے ہیں کیونکہ وہ انہیں قبر پرستی اور پیر پرستی جیسی بدعات سے نکال کر صرف ایک اللہ کی طرف موڑ رہا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض اوقات وہ ایسی باتیں کر جاتا ہے جو ایک عام مسلمان کے شایان شان نہیں ہوتیں۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ خود انجینئر علی مرزا کو بھی علم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔
مثال کے طور پر، ایک ویڈیو میں وہ کہتا ہے کہ جاپان کے پاس پرل ہاربر پر حملہ کرنے کی مکمل طاقت تھی، اور امریکہ جاپان سے ٹویوٹا اور ہونڈا جیسی گاڑیاں خریدتا تھا۔ لیکن پھر اگلی ہی سانس میں وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ پچھلے تین سو سالوں میں دنیا کے جس بھی ملک نے ترقی کی، اس کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ تھا۔ یہ تضاد اس کی کم علمی کو ظاہر کرتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ کبھی نہیں چاہے گا کہ کوئی مسلمان ملک ترقی کرے اور امریکہ سے آگے نکل جائے۔ وہ یہی چاہتا ہے کہ تمام مسلمان قبروں میں چلے جائے تاکہ اسے تیل کے کنویں اور کھجور کے باغ مفت میں ملے۔
وہ یہ بھی جانتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ قرضہ ( چار ٹرلین ڈالر) امریکہ پر ہے، جو صرف تین سو سال سے دنیا پر اثر و رسوخ رکھ رہا ہے۔ لیکن قرآنِ مجید میں فرعون کا ذکر کیا گیا ہے، جو مصر میں تین ہزار سال تک حکمرانی کرتے رہے۔ آج ان کا نہ کوئی پیروکار باقی ہے، نہ ان کے مذہب کا ماننے والا، اور نہ ہی ان کے خاندان کا کوئی وارث۔
اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غلامی کو قبول کر لیا ہوتا، تو آج عرب کے لوگ لات اور منات کی پوجا کر رہے ہوتے اور فارسیوں یا رومیوں کے غلام ہوتے۔
اسلام کا پیغام غلامی کو قبول کرنے کا نہیں ہے، بلکہ ظلم، ناانصافی، اور جبر کے خلاف کھڑے ہونے کا ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ غلامی کی زنجیریں توڑ دو اور اگر اس جدوجہد میں مارے جاؤ تو جنت الفردوس تمہارا انعام ہوگی۔
جیسا کہ شاعر کہتا ہے:
"نہ ہوئی زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہین کے بچوں کو صحبتِ زاغ"
Comments
Post a Comment
Thank you for commenting. Your comment shows your mentality.