میں نے آخر اپنی سوچ، زبان اور قلم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں کیوں ڈال دیے؟
کچھ زیادہ ذہین لوگوں کے لیے اسلام پر عمل کرنا مشکل کیوں ہو جاتا ہے؟
سب سے پہلے آپ تسلیم کیجیے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان تھے اور ساتھ ہی وہ اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر بھی تھے۔ اگر آپ انہیں صرف ایک انسان سمجھیں گے تو آپ کے لیے ان کی تعلیمات پر عمل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ شاید آپ کہیں گے کہ ایک انسان دوسرے انسان کے اشاروں پر ہر وقت کیوں چلے؟ اور اگر آپ انہیں صرف پیغمبر سمجھیں گے تو بھی آپ کے لیے ان کی تعلیمات پر عمل کرنا دشوار ہو گا، کیونکہ جب دین ِاسلام آپ سے کوئی قربانی مانگے گا تو آپ کہہ سکتے ہیں: "میں تو ایک عام انسان ہوں، کمزور ہوں، میں اسلام کے ہر حکم پر عمل نہیں کر سکتا۔ میں شیطان کے وسوسوں میں آ جاتا ہوں۔ میں کوئی پیغمبر تھوڑی ہوں کہ میں بڑی بڑی تکلیفیں برداشت کر سکوں۔ "
لہٰذا، قرآن بار بار اگلے اور پچھلے انسانوں کو یاد دلاتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان ہیں۔ باقی انسانوں کی طرح یہ بھی کھاتے ہیں، پیتے ہیں، سوتے ہیں، انہیں بھوک لگتی ہے اور وہ بیمار بھی ہوتے ہیں۔ البتہ، وہ صرف ایک انسان نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے آخری اور برگزیدہ پیغمبر بھی ہیں۔ لہٰذا، اگر وہ آپ کو کوئی نصیحت کریں یا کوئی حکم دیں تو یقین کیجیے کہ اس میں آپ کا فائدہ ہے—خواہ دنیا میں، آخرت میں یا دونوں جگہ۔
میرے دل نے کیسے مان لیا؟
میں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر کی حیثیت سے تسلیم کر لیا ہے۔ میں نے بہت سے پڑھے لکھے لوگوں کے تحریری کام دیکھے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات جیسی کوئی دعا یا سورہ تخلیق نہیں کر سکا جس کی تازگی اور اثر ہزاروں سال تک برقرار رہا ہو۔۔ آپ کوئی بھی دعا لیجیے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہے اور اس کے الفاظ و معانی پر غور کیجیے۔ آپ کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ چاہے آپ پروفیسر ہوں، عالم ہوں یا دانشور، آپ ایسی دعائیں خود سے نہیں بنا سکتے۔ اگر آپ خود کو آزمانا چاہیں تو دو چار دعائیں لکھنے کی کوشش کیجیے۔ آپ کو خود ہی احساس ہو جائے گا کہ آپ کس معیار کے ہیں—خاص کر اس 21ویں صدی میں
کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی استاد نے یہ ساری چیزیں سکھائی ہوں گی۔ ان لوگوں سے میں درخواست کرتا ہوں: کیا آپ کسی اسکول، کالج یا یونیورسٹی میں پڑھنے کے بعد، یا سوشل میڈیا پر ہزاروں انسانوں کے لیکچر سننے کے بعد، کوئی ایسا مضمون لکھ سکتے ہیں جسے لوگ ہزاروں سال تک اپنے دلوں میں محفوظ رکھیں؟ کیا آپ ایسا کچھ لکھ سکتے ہیں جس کے ایک ایک لفظ پر لوگ مر مٹنے کے لیے تیار ہو جائیں؟
الزام لگانا آسان ہے، لیکن عملی طور پر کوئی شاندار کام کر دکھانا بالکل الگ بات ہے۔
: قرآن کے وعدے اور تاریخ کی گواہی
قرآن میں جو وعدے کیے گئے ہیں، وہ لگ بھگ سب پورے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی جھوٹا انسان ایسے وعدے کرتا تو وقت اسے بھلا دیتا۔ مثلاً، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا گیا:
"آپ کا آنے والا وقت آپ کے گزرے ہوئے وقت سے بہتر ہوگا۔ لوگ آپ کو آنے والے زمانے میں تسلیم کریں گے۔
آج دنیا کی خبریں پڑھیں تو معلوم ہو گا کہ روزانہ کتنے ذہین لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں۔
دنیا کی خود غرضی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بے نفسی :
میں نے بڑے بڑے افسران، لیڈروں، تاجروں اور علماء کو دیکھا ہے۔ ان کا بنیادی مقصد صرف اپنی زندگی کو بہتر بنانا ہوتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بادشاہت کے مواقع تھے، لیکن آپ نے فقیری کو ترجیح دی۔ جب آپ ان کی زندگی کا مطالعہ کریں گے تو پتہ چلے گا کہ آپ جیسا ہمدرد، غریبوں، محتاجوں، کمزوروں، عورتوں، بچوں اور پسماندہ لوگوں کا خیال رکھنے والا اس زمین پر کوئی نہیں ہوا۔ ہم سب کسی نہ کسی حد تک خود غرض ہیں، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی، گھر، شہر اور حتیٰ کہ اپنے دیے ہوئے نظام میں بھی خود غرضی کو کبھی جگہ نہیں دی۔
یہ چھوٹی بات نہیں کہ ایک انسان کو دنیا ڈیڑھ ہزار سال سے پڑھ رہی ہے، مگر آج تک کوئی مخلص شخص ان کے نظام سے بہتر نظام نہیں بنا سکا۔ میں یہ باتیں جذبات میں آ کر نہیں کہہ رہا ہوں۔ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ قریب 25 سال تک ایک سخت ناقد، ایک مسلمان اور ایک غیر مسلم کی نظر سے کیا ہے۔ آخر کار مجھے ان کی عظیم شخصیت کے سامنے سر، سوچ، زبان اور قلم جھکانے پڑے۔
: دوسرے عظیم لوگوں سے موازِنہ
اگر آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا موازنہ ارسطو، افلاطون، سقراط، سکندر، چنگیز خان، جولیس سیزر، ملکہ الزبتھ، جارج واشنگٹن، ابراہم لنکن، نپولین، لینن، سٹالن، ماؤ زے تنگ، چرچل یا گاندھی جیسے لوگوں سے کریں گے تو آپ کو ماننا پڑے گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دنیا اور آخرت دونوں لحاظ سے سب سے کامیاب انسان ہیں۔ ان کی ہر بات، ہر عمل لوگوں کے دلوں اور کتابوں میں محفوظ ہے۔ آج بھی جو کوئی ان کی تعلیمات پر تحقیق کرتا ہے، اس کے پاس ان پر عمل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ذہین ترین سائنسدان، پروفیسر، ادیب اور لیڈر اسلام قبول کر رہے ہیں۔
: آخری سوال
آپ سے ایک سوال ہے: کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی موت کے بعد آپ کے خاندان یا دوست، یا آنے والے لوگ آپ کو 100 یا 200 سال تک یاد رکھیں گے؟ کیا آپ نے انسانیت کے لیے کوئی ایسا کام کیا ہے جو آنے والی نسلوں کے دلوں میں زندہ رہے؟
اگر آپ اپنی ذہانت، طاقت اور کامیابیوں کا موازنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کریں گے تو آپ کو احساس ہو گا کہ آپ کتنا چھوٹے ہیں اور وہ کتنا عظیم ہیں۔
اگر آپ حسد، شیطانی وسوسوں یا دنیاوی لالچ کے جال میں نہیں پھنسے ہیں، بلکہ سکون اور حقیقی کامیابی چاہتے ہیں، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر تحقیق کیجیے۔ مستند کتابیں پڑھیے۔ ایک دن آپ کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اگر اس دنیا میں کوئی بہترین زندگی گزارنے کا طریقہ ہے تو وہ صرف اور صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا ہوا طریقہ ہے۔ ورنہ آپ اس دنیا کے بھنور میں گھوم گھوم کے، گھوم گھوم کے پاگل ہو کر رہ جائیں گے۔
اور ہاں، آپ ان پڑھ اور نادان مسلمانوں کو دیکھ کر اسلام کے بارے میں رائے قائم نہ کریں۔ بلکہ اسلام کی مستند کتابوں کو سمجھ کر اس کے بارے میں فیصلہ کریں۔ میری تحقیق اور مشاہدے کے مطابق، آج کے دور میں دین اسلام کے سب سے بڑے دشمن یہی ان پڑھ اور نادان مسلمان ہیں۔ ان کا حضرت محمد ﷺ کی اصل تعلیمات کے ساتھ کوئی دور دور تک بھی تعلق نہیں ہے۔ یہ لوگ ہر وہ کام، جس کا حکم یا طریقہ حضور ﷺ نے بتایا ہے، صحیح طور پر ادا نہیں کرتے۔
یہ لوگ اسلام کے خوبصورت باغ میں کوڑا کرکٹ کی مانند ہیں۔ ان شاء اللہ، عنقریب اللہ تعالیٰ اس اسلامی باغ سے اس کوڑے کرکٹ کو دور کر دے گا۔ پھر اس باغ میں نئے پودے اور نئے خوشبو دار پھول کھلیں گے، جو اسلام کی حقیقی روح کو اجاگر کریں گے
۔
ساحِلؔ شریف الدین بٹ
Comments
Post a Comment
Thank you for commenting. Your comment shows your mentality.