"ایک مذہب کو ٹکڑوں میں بانٹنے والے اور نوجوانوں کو مذہب سے دوُر کر کے اِلحاد اور کفر کے دلدل میں پھنسانے والے اُسی مذہب کے مولوی، مفتی، پادری یا پنڈت ہوتے ہیں۔"
اگر ایک بیماری قابو میں نہیں آتی، تو ڈاکٹروں کو ذمّہ دار ٹھہراؤ۔ اگر مکان، دکان، دیوار یا پُل تعمیر ہوتے ہی گِر جاتے ہیں، تو انجینئروں کو ذمّہ دار ٹھہراؤ۔ اگر چوری اور ڈاکہ زنی عام ہیں، تو پولیس والوں کو ذمّہ دار ٹھہراؤ۔ اسی طرح اگر ایک مذہب ٹکڑوں میں بٹا ہوا ہے اور اِس مذہب کے پیروکار ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن چکے ہیں، تو اُس مذہب کے مولویوں کو ذمہ دار ٹھہراؤ۔
جب ہم موجودہ دور کے مولویوں کے گفتار اور کردار پر غور کرتے ہیں تو ہم درجہ ذیل حقائق سے روشناس ہو جاتے ہیں:
"قرآن خود مت پڑھو، گمراہ ہو جاؤ گے۔ ہمارے مسلک کے خلاف بولو گے تو قتل ہو جاؤ گے۔ ہمارے مسلک کو مانو گے تو جنتی ہو۔ ہمارے مسلک کو نہیں مانو گے تو جہنم میں جاؤ گے۔ تم مزدوری بھی کرو اور مسجد میں مفت میں نماز بھی پڑھو۔ تم نوکری بھی کرو اور مسجد میں مفت میں نماز بھی پڑھو۔ تم زمین داری بھی کرو اور مسجد میں مفت میں نماز بھی پڑھو۔ لیکن ہم کوئی اور کام نہیں کریں گے۔ ہم صرف آپ کو مسجد میں نماز پڑھائیں گے اور نماز پڑھانے کے لیے ہم آپ سے تنخواہ لیں گے۔ اگر ہمیں نماز پڑھانے کے لیے دوسری مسجد میں زیادہ تنخواہ ملے گی تو ہم آپ کی مسجد کو چھوڑ کر اُس دوسری مسجد میں نماز پڑھانے کے لیے جائیں گے۔ یہ بات صحیح ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی نماز پڑھانے کے لیے یا وعظ سنانے کے لیے تنخواہ نہیں مانگتے تھے لیکن ہم مولوی ہے۔ ہم پیغمبر ہیں نہ صحابی۔ سوشل میڈیا ہم بھی چلاتے ہیں۔ بینک میں ہم بھی پیسہ رکھتے ہیں۔ ہمارے بچّے بھی اُسی سکول میں پڑھتے ہیں جہاں تمہارے بچّے پڑھتے ہیں۔ ہمارا علاج اُسی ہسپتال میں ہوتا ہے جہاں تمہارا علاج ہوتا ہے۔ ہم بھی اُسی بازار سے چیزیں خرید لیتے ہیں جہاں سے تم خرید لیتے ہو۔ ہم بھی وہی پانی پیتے ہیں جو آپ پیتے ہو۔ ہم بھی وہی ہوا پیتے ہیں جو آپ پیتے ہو۔ ہماری بہن بیٹیاں بھی وہی کپڑے پہنتی ہیں جو تمہاری بہن بیٹیاں پہنتی ہیں ۔ تم گلی کوچوں میں ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے ہو اور گالی گلوچ کرتے ہو۔ ہم مسجد کے ممبروں پر بیٹھ کر ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے ہیں اور گالی گلوچ کرتے ہیں۔ نہ تم نے اب تک کسی سکھ، ہندو ، یہودی یا عیسائی کو مسلمان بنایا ہے اور نہ ہم نے اب تک کسی سکھ، ہندو ، یہودی یا عیسائی کو مسلمان بنایا ہے۔ دنیا میں جو مشہور لوگ آج غیر مسلموں کو مسلمان بناتے ہیں، وہ ڈاکٹر، انجینیئر یا پروفیسر ہوتے ہیں مدرسوں کے مولوی نہیں۔ ہم موجودہ دور کے یونیورسٹی طالب علموں اور کالج کے طالب علموں کے ساتھ سائنسی اور فلسفی مضامین پر بحث و مباحث کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ہم عربی زبان میں عربوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ہم چور کو ہاتھ کاٹنے کے قابل نہیں ہیں۔ ہم زانی کو سنگسار کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ہم سودی نظام سے اپنے آپ کو آزاد نہیں کر سکتے ہیں۔ ہم عورتوں کے لیے الگ اسکول، الگ ہسپتال، الگ ٹرانسپورٹ، اور نہ الگ دفاتر بنانے کے قابل ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ جو اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دیا تھا، ہم اُس اسلام کے دس فیصد پر بھی آج عمل نہیں کر پاتے ہیں۔ لیکن ایک بات پر ہم سر کٹانے کے لیے تیار ہیں: آپ محکوم ہو اور ہم حاکم۔ آپ جاہل ہو اور ہم مولوی ہیں۔ آپ نہیں جانتے ہو لیکن ہم جانتے ہیں۔ آپ کو پتہ نہیں ہے لیکن ہمیں پتہ ہے۔ آپ فتوے نہیں دے سکتے ہو کیونکہ آپ لوگوں کے پاس مدرسوں کی ڈگریاں نہیں ہوتی ہیں، ہم فتوے دے سکتے ہیں۔ گھر کیسے بناتے ہیں، یہ آپ جدید تعلیم سے پوچھو۔ ہسپتالوں میں علاج کیسے کیا جاتا ہے اور دوائی کیسے بنائی جاتی ہے، یہ بھی آپ جدید تعلیم سے پوچھو۔ گاڑیاں، کمپیوٹر، موبائل فون، ٹیلی ویژن کیمرہ وغیرہ کیسے بناتے اور چلاتے ہیں، یہ بھی آپ جدید ایجوکیشن سے پوچھو۔ کپڑے اور جوتے کیسے بنائے جاتے ہیں، یہ بھی آپ جدید ایجوکیشن سے پوچھو۔ زندہ رہنے کے لیے جو بھی آپ کو ضرورت ہے وہ سب جدید ایجوکیشن سے پوچھو۔ مگر، ایک اچھا مسلمان کیسے بنتے ہیں اور جنّت میں کیسے جا سکتے ہیں، یہ سب آپ قرآن اور حدیث سے مت پوچھو ، گمراہ ہو جاؤ گے۔ یہ آپ ہم سے پوچھو ، ہم بتائیں گے۔ ہم مولوی ہیں۔ ہمارا نہیں مانو گے تو برباد ہو جاؤ گے۔ ہم آپ کو قرآن نہیں پڑھائیں گے۔ ہم آپ کو عربی زبان بھی نہیں سکھائیں گے۔ ہم آپ کو تجوید نہیں سکھائیں گے۔ ہم آپ کو بخاری شریف, مسلم شریف اور ابو داؤد شریف کے احادیث کبھی نہیں پڑھائیں گے۔ ہم آپ کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کبھی نہیں پڑھائیں گے۔ ہم آپ کو حلال اور حرام کی فہرست کبھی نہیں دِکھائیں گے۔ ہم آپ کو ایمانِ مفصل، ایمانِ مجمل، قرآن کی سورتیں، قرآن اور احادیث میں ثابت مسنون دعائیں وغیرہ کبھی نہیں یاد کرائیں گے۔ ہم آپ کو وضو اور غسل کے صحیح طریقے کبھی نہیں سِکھائیں گے۔ ماں باپ کے حقوق، رشتہ داروں اور بچوں کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، آس پاس میں رہنے والے غیر مسلموں کے حقوق، اِن سب چیزوں کے بارے میں ہم نہیں بتائیں گے۔ یہ سب ہم نے بھی مدرسوں میں سیکھا نہیں ہے۔ البتہ ہم آپ کو رفع یدان کے نام پر، علمِ غیب کے نام پر، قبروں سے مدد مانگنے کے نام پر، تراویح کے نام پر ، عرس اور میلے لگانے کے نام پر، اور اونچی آواز میں ذکر کرنے کے نام پر ایک دوسرے کے ساتھ خوب لڑائیں گے تاکہ ہماری تنخواہ جاری رہے اور ہمارے دکان بند نہ ہو جائیں۔ کیا کریں؟ ہمارے بھی گھر ہیں۔ ہمارے بھی بیوی بچّے ہیں۔ ہم مت نہ مزدوری یا کاروبار یا نوکری کر سکتے ہیں۔ ہم آپ کو تنخواہ پر نماز پڑھائیں گے۔ ""
یہ مولوی ہیں، یہ نہیں بدلیں گے۔ میرے بھائیو اور بہنو، آپ ضرور بدل سکتے ہو۔ بدلنا ہے تو قرآن ترجمے کے ساتھ پڑھنا آج ہی سے شروع کرو۔
(مصنف: ساحِلؔ)
Comments
Post a Comment
Thank you for commenting. Your comment shows your mentality.