Skip to main content

Posts

بڑی کامیابی کے لیے بے حد محنت کرنا پڑتی ہے۔

  بڑی کامیابی کے لیے بے حد محنت کرنا پڑتی ہے۔ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے 40 سال کی عمر میں اسلام کی تبلیغ شروع کی، تو آپ تنہا تھے۔ تین سال بعد، آپ کے ساتھ تقریباً 40 مسلمان تھے۔ پانچ سال بعد، آپ نے تقریباً 100 مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کروائی۔ 12 سال بعد، آپ تقریباً ڈیڑھ سو مسلمانوں کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ 14 سال بعد، آپ نے تقریباً 300 مسلمان سپاہیوں کے ساتھ جنگِ بدر لڑی۔ 15 سال بعد، آپ نے ایک ہزار سپاہیوں کو جنگِ اُحد میں شامل کیا۔ 20 سال بعد، آپ نے تقریباً 10 ہزار مسلمان سپاہیوں کے ساتھ مکّہ فتح کیا۔ 22 سال بعد، آپ نے تقریباً 30 ہزار مسلمان سپاہیوں کے ساتھ جنگِ تبوک میں شرکت کی۔ حجۃ الوداع کے موقع پر، آپ کے ساتھ تقریباً ڈیڑھ لاکھ مسلمان تھے۔ آج، دنیا میں تقریباً 200 کروڑ مسلمان موجود ہیں۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ بڑی کامیابی کے لیے بے حد محنت اور بہت زیادہ صبر کرنا پڑتی ہے۔

When the Prophet Muhammad [PBUH] bit his own sister

  When the Prophet Muhammad [PBUH] bit his own sister Background Shaima, whose full name was Shayma bint Al-Harith, was the daughter of Halima Saadia and the foster sister of the Prophet Muhammad (PBUH). Halima Saadia was the woman who nursed Muhammad (PBUH) when he was a baby and he lived with her and her family in the desert for the first few years of his life. The Battle of Hunain The Battle of Hunain took place in 630 CE (8 AH) between the Muslims led by the Prophet Muhammad (PBUH) and the tribes of Hawazin and Thaqif. The battle occurred in the valley of Hunain, close to Mecca. Shaima's Capture During the battle, many members of the Hawazin tribe were captured, including women and children. Among those captured was Shaima. When she was brought before the Prophet Muhammad (PBUH), she claimed to be his foster sister. Identification To prove her claim, Shaima showed the Prophet Muhammad (PBUH) a distinctive bite mark on her shoulder. This bite mark was from their childho

میدان میں اُترنا بھی اسلام ہے۔ میدان سے بھاگنا بھی اسلام ہے۔

  میدان میں اُترنا بھی اسلام ہے۔  میدان سے بھاگنا بھی اسلام ہے۔  بدلتے وقت کے ساتھ جس نے بدلنا نہیں سیکھا، اُس کو ڈال دیتی ہے گردشِ ایام خطرے میں  اِس دنیا کا بہترین اور ذہین ترین انسان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نئی لڑائی نئے طریقے سے لڑی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نہیں سوچا کہ آپ کے ساتھ اللہ تعالی کی مدد، فرشتوں کی مدد اور جان دینے والے صحابیوں کی مدد ہے، لہذا وہ کسی بھی دشمن کے خلاف کبھی بھی اور کہیں بھی دوڑ کے لڑنے کے لیے جائیں گے۔ ایسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نہیں کیا۔    جنگِ بدر (623 عیسوی) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی فوج لے کر دشمن کے پیچھے دوڑے اور اُن کو بری طرح ہرایا۔  جنگِ اُحد (625 عیسوی ) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ ہار کر اپنے بچے ہوئے فوجیوں کو لے کر ایک پہاڑ پر بیٹھے۔  جنگِ خندق (627 عیسوی) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کو روکنے کے لیے ایک بہت بڑی نہر کھودوائی ۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی فوج کو ایک خطرناک دشمن کے سامنے آنے نہ دیا۔   جنگِ موتہ (629 عیسوی) میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے  تین ہزار مسل

کیا ووٹ ڈالنا کفر ہے؟

  کیا ووٹ ڈالنا کفر ہے؟  کچھ لوگ ووٹ اس لیے نہیں ڈالتے ہیں کیونکہ اُن کو کہا گیا ہے کہ ووٹ ڈالنا کفر ہے یا ووٹ ڈالنا ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ اُن کو سمجھایا گیا ہے کہ ووٹ ڈالنے کا مطلب ہے 'جمہوری نظام کا ساتھ دینا' اور جمہوریت اسلام کے خلاف ہے۔  اُن کو مزید بتایا جاتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو ووٹ ڈالنا یا جمہوریت  یا بادشاہت یا سامراجیت نہیں سکھائی ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو  صرف خلافت سکھائی ہے اسی لیے حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی اور حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہم مسلمانوں کے خلفاء رہے ہیں، نہ  وہ بادشاہ رہے ہیں اور نہ ووٹ حاصل کرنے کے بعد منتری۔  اب سوال یہ ہے کہ دنیا کے کس مسلمان ملک یا کس ملک میں آج خلافت رائج ہے؟  پاکستان، مصر، سعودی عربیہ، یمن، شام ،ایران، ترکی وغیرہ مسلمان ملکوں میں عام مسلمان سڑکوں پر آ کر بادشاہت یا جمہوریت کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کرتے ہیں؟  آخر کیوں بھارتی مسلمان کو خلافت کا لولی پاپ دِکھایا جا رہا ہے؟  کیا ہم نے اپنی مسجدوں کا،  اپنے درسگاہوں کا اور اپنا اپنا پیسہ بینکوں میں نہیں رکھا ہے؟ کیا ہمارا اس

کیا تم ایک ذہین انسان ہو؟

  کیا تم ایک ذہین انسان ہو؟   میرے مطابق ایک ہزار لوگوں میں صرف ایک انسان ذہین ہوتا ہے۔ ذہین انسان اپنے دماغ کا استعمال کرتا ہے۔ وہ سوال پوچھتا ہے۔ وہ پرانے سوالوں کے نئے جواب ڈھونڈتا ہے۔ وہ اپنی ساری زندگی پیسے کمانے اور پیسے خرچ کرنے میں ضائع نہیں کرتا ہے۔ وہ دنیا میں موجود بیماریوں اور کمزوریوں کا علاج کرنا چاہتا ہے۔ وہ اس دنیا کو ایک بہترین جگہ بنانا چاہتا ہے۔ وہ صرف اپنے گھر کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کے حق میں ہمیشہ بہترین سوچتا ہے۔ وہ سچ، انصاف اور دنیا کی ترقی کے خاطر کسی کی بھی دشمنی مول لیتا ہے۔ ذہین انسان سے مختصرًا میری مراد وہ انسان ہے جو اِس دنیا میں آ کر صرف اوروں کی باتیں نہیں سُنتا ہے بلکہ اپنے دماغ سے بھی کام لیتا ہے۔ چاہے آپ امیر بنو گے یا غریب، نیک بنو گے یا بُرا، آپ ایک دن مر جاؤ گے۔ کوئی بھی انسان اپنے آپ کو موت سے بچا نہیں سکتا ہے۔ موت سے بچنے کے لیے نہ اپنے آپ کو کسی کمرے میں بند رکھنا ہے اور نہ بازاروں میں دن رات گھومنا ہے۔ یہ موت ہمارے لیے اُسی ذات نے بنائی ہے جس نے ہم سے پوچھے بِنا ہمیں مرد یا عورت، غریب یا امیر، خوبصورت یا بدصورت، بیمار یا صحت مند بنایا

جنگِ احد میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جان لیوا حملہ کس کس نے کیا تھا؟

  جنگِ احد میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ  وسلم پر جان لیوا حملہ کس کس نے کیا تھا؟  جنگِ احد میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی, کاندھے اور منہ مبارک زخمی کیسے ہو گئے ؟  آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے والے تین لوگ عُتبہ بن ابی وقاص ، عبد اللہ بن شہاب زہری اور عبداللہ بن قمئہ تھے۔ ان تین لوگوں نے اتنا خطرناک حملہ کیا کہ اِن کو لگا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے اور پھر یہ لوگ اپنے سردار کو خوشخبری دینے کے لیے بھاگ گئے۔   صحیح مسلم میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ اُحد کے روز رسول اللہﷺ سات انصار اور دوقریشی صحابہ کے ہمراہ الگ تھلگ رہ گئے تھے۔ جب حملہ آور آپﷺ کے بالکل قریب پہنچ گئے تو آپﷺ نے فرمایا : کون ہے جو انہیں ہم سے دفع کرے اور اس کے لیے جنت ہے ؟ یا (یہ فرمایا کہ ) وہ جنت میں میرا رفیق ہوگا؟ اس کے بعد ایک انصاری صحابی آگے بڑھے اور لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ اس کے بعد پھر مشرکین آپﷺ کے بالکل قریب آگئے ، اور پھر یہی ہوا۔ اس طرح باری باری ساتوں انصاری صحابی شہید ہوگئے۔ اس پر رسول اللہﷺ نے اپنے دو باقی ماندہ ساتھیوں - یعنی قریشیوں- سے فرمایا : ہم نے اپنے ساتھیوں سے انصاف

ابو لہب کی موت؟

           ©️ Image credit; rightful owner ؟ ابو لہب کی موت؟ موت سے کوئی بھاگ نہیں سکتا۔  جنگِ بدر میں بڑے بڑے کافر مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ ابو لہب جو حضرت #محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بڑا دشمن تھا، جنگ بدر میں لڑنے نہیں گیا تھا کہ کہیں کوئی مسلمان اُسے  قتل نہ کر دے۔ جب اُس نے جنگِ بدر میں کافروں کی ہار کی خبر سُنی تو وہ غصّے سے پاگل ہو گیا اور مکہ میں موجود غریب مسلمانوں کو پیٹنے لگا۔ اتنے میں ایک  نڈر مسلمان خاتون، لبابہ رضی اللہ عنہا نے ابو لہب کے سر پر ایک ڈنڈا مارا جس سے اُس کا سر زخمی ہوا۔ سات دن کے بعد ابو لہب مر گیا۔ یہ بندہ مسلمانوں کے ہاتھوں مرنا نہیں چاہتا تھا لیکن اللہ تعالی نے اس کو مسلمانوں کے ہاتھوں ہی مار ڈالا۔ یہ *"تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ"* والا ابی لہب ہے۔. یہ جنگِ بدر میں لڑنے نہیں گیا، پھر بھی جنگِ بدر کے دنوں میں ہی گھر پر  مارا گیا۔  

اہل حدیثوں/ وہابیوں نے البانی صاحب کو سعودی عرب سے کیوں نکال دیا؟ تھا؟

اہل حدیثوں/ وہابیوں   نے البانی صاحب کو سعودی عرب سے کیوں نکال دیا تھا؟   سچ کڑوا ہوتا ہے اور کڑوی چیزیں دنیا میں بہت کم لوگ برداشت کر سکتے ہیں۔ سچائی سے ایک مسلمان کو تکلیف نہیں ہونا چاہیے۔ سچائی کو سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اللہ تعالی کے بعد ایک ہی شخصیت مکمل ہے اور وہ شخصیت  صرف اور صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ باقی سب عالم، فاضل، مفتی، مولوی، پیر، فقیر، درویش وغیرہ میں سے کوئی بھی کامل مسلمان یا کامل اِنسان نہیں ہو سکتا ہے۔  البتہ جو بھی انسان آپ کو کہتا ہے کہ قرآنِ  مجید ایک مکمل ہدایت کی کتاب نہیں ہے یا نماز پڑھنے سے خدا نہیں ملتا ہے، آپ اس انسان سے دور بھاگو کیونکہ آپ کو وہ  انسان اللہ تعالی کے ساتھ نہیں بلکہ شیطان کے ساتھ ملانا چاہتا ہے۔ کوئی بھی اُستاد یا رہبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے نظام کے خلاف بولنے کی اوقات نہیں رکھتا ہے۔ شیخ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ یورپ کے ایک ملک، البانیا میں 1914 عیسوی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے گھر والے حنفی مسلک کے ساتھ وابستہ تھے مگر انہوں نے تعلیم شام میں پائی۔ وقت کے ساتھ ساتھ آپ ایک بہت بڑے محدث بن گئے مگر اپنا گھ

سرخ گائے کا مسئلہ اور قیامت سے پہلے کی آخری بڑی جنگ؟

  ©️ Image credit; rightful owner  سرخ گائے کا مسئلہ اور قیامت سے پہلے کی آخری بڑی جنگ؟  قرآن مجید کی دوسری سورت کا نام "گائے" ہے۔ ہندو لوگ بھی گائے کو پوجتے ہیں اور گائے کے مارنے یا جلانے پر مانے اور مر مٹنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ باقی کئی مذہب والے بھی گائے کا گوشت نہیں کھاتے ہیں یا گوشت ہی نہیں کھاتے ہیں۔ یہودی اور عیسائی کتابوں میں بھی گائے کا کافی چرچہ ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ گائے کی وجہ سے ہی دنیا میں ایک بہت بڑی جنگ چِھڑ جائے گی جِسے آنے والی نسلیں "جنگِ گائے" کے نام سے یاد رکھیں گے۔    المیہ یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے پڑھے لکھے لوگ بھی انپڑھ لوگوں کی طرح ہی سُنی سُنائی باتوں پر یقین کرتے ہیں۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ موجودہ زمانے کے لوگ خبروں سے بھرے ہوئے ہیں مگر علم سے خالی ہیں۔ سرخ گائے کا مسئلہ میں نے تورات کے چوتھے سورے یا چوتھی کتاب میں پڑھا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت سے لے کر 70 عیسوی تک یہودیوں نے نَو سرخ گائیوں کی قربانی کی ہے۔ جس طرح مسلمان غسل کر کے یا ماہِ رمضان میں روزے رکھ کے اپنے آپ کو پاک کرتے ہیں، کچھ اِسی طرح یہ یہودی لوگ بھی

مولویوں کو ذمّہ دار ٹھہراؤ!

! مولویوں کو ذمّہ دار ٹھہراؤ !  "ایک مذہب کو ٹکڑوں میں بانٹنے والے اور نوجوانوں کو مذہب سے دوُر کر کے اِلحاد اور کفر کے دلدل میں پھنسانے والے اُسی مذہب کے مولوی، مفتی، پادری یا پنڈت ہوتے ہیں۔" اگر ایک بیماری قابو میں نہیں آتی، تو ڈاکٹروں کو ذمّہ دار ٹھہراؤ۔ اگر مکان، دکان، دیوار یا پُل تعمیر ہوتے ہی گِر جاتے ہیں، تو انجینئروں کو ذمّہ دار ٹھہراؤ۔ اگر چوری اور ڈاکہ زنی عام ہیں، تو پولیس والوں کو ذمّہ دار ٹھہراؤ۔ اسی طرح اگر ایک مذہب ٹکڑوں میں بٹا ہوا ہے اور اِس مذہب کے پیروکار ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن چکے ہیں، تو اُس مذہب کے مولویوں کو ذمہ دار ٹھہراؤ۔  جب ہم موجودہ دور کے مولویوں کے گفتار اور کردار پر غور کرتے ہیں تو ہم درجہ ذیل حقائق سے روشناس ہو جاتے ہیں:  "قرآن خود مت پڑھو، گمراہ ہو جاؤ گے۔ ہمارے مسلک کے خلاف بولو گے تو قتل ہو جاؤ گے۔ ہمارے مسلک کو مانو گے تو جنتی ہو۔ ہمارے مسلک کو نہیں مانو گے تو جہنم میں جاؤ گے۔ تم مزدوری بھی کرو اور مسجد میں مفت میں نماز بھی پڑھو۔ تم نوکری بھی کرو اور مسجد میں مفت میں نماز بھی پڑھو۔ تم زمین داری بھی کرو اور مسجد میں مفت میں نم